رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اشرافیہ نے ہر دور میں جاتے ہوئے معیشت کا جنازہ نکالا، حکومت کا معاشی سرجن آج کل منی لانڈرنگ کیسز میں عدالت کو مطلوب اور مفرور ہے، غیر ملکی قرضہ 94 ارب ڈالر سے بڑھ گیا، جس ملک کے حکمرانوں کی کوئی اقدار نہ ہوں اس ملک کی کرنسی بھی بے قدر ہوتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ڈالر میں اضافہ اور ایمنسٹی سکیموں کا فائدہ صرف کالے دھن والوں کو ہوتا ہے، اشرافیہ کی کاسمیٹکس ترقی غیر ملکی قرضوں کی مرہون منت ہے، ٹیکس چوروں، کمیشن خوروں اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے حکومتی اشارے پر راتوں رات ڈالر کی قیمت میں 5 روپے اضافہ کیا گیا، اس غیر معمولی اضافہ پر وزرات خزانہ اور سٹیٹ بنک کی طرف سے فوری پالیسی بیان سامنے نہ آنا حیران کن ہے۔
انہوں نے بیان کیا کہ لگ رہا ہے الیکشن کے اخراجات پورے کرنے، مینڈیٹ کی خرید و فروخت کیلئے حکومت میں بیٹھے مافیا نے کسی ایمنسٹی سکیم کے ذریعے کالا دھن پاکستان داخل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے، پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں اس حد تک دھنسا دیا ہے کہ اب سود ادا کرنے کیلئے بھی بھاری سود پر قرضے لینے پڑ رہے ہیں، پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ساری اشرافیہ نیب کے زیر علاج ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں راتوں رات اضافہ تحقیق طلب ہے، اس اضافہ سے غیر ملکی قرضوں اور سود کی قسط میں اضافہ، پٹرول، ڈیزل، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سمیت مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا جس کا خمیازہ کسی نہ کسی شکل میں اس ملک کا کسان، مزدور، کلرک اور کم آمدنی والا شہری بھگتے گا۔
انہوں نے کہا کہ نواز لیگ نے ہمیشہ بہترین اقتصادی ٹیم رکھنے اور معاشی مہارت کے دعوے کیے مگر ہر دور میں جاتے ہوئے ملکی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں پر کھڑا کر کے گئے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر 2007 کی سطح سے بھی نیچے آ چکے ہیں۔ درآمدات، برآمدات سے زیادہ ہیں، گردشی قرضہ 2013 کے مقابلے میں ڈبل ہو چکا ہے، حکومتی کرپشن اور بیڈ گورننس کی وجہ سے سرکاری کارپوریشنوں کا خسارہ بھی دوگنا ہو گیا مگر آج تک تباہ حال ملکی معیشت پر پارلیمنٹ میں بحث تک نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہاکہ پاکستان دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں147ویں نمبر پر ہے۔ 1960 میں پاکستان میں فی کس آمدن 100 ڈالر تھی اور جنوبی کوریا میں فی کس آمدن 60 ڈالر تھی، آج جنوبی کوریا کی فی کس آمدن 11ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور دنیا کو ائیر لائن کے شعبے میں ٹریننگ دینے والی پی آئی اے بند ہونے کے قریب ہے اور حکمران ڈھٹائی سے کہتے ہیں ایک ڈالر میں ادارے خرید لو۔
انہوں نے کہاکہ قومیں شفافیت، گڈ گورننس اور ایماندار حکومتی انفراسٹرکچر سے مضبوط اور عظیم بنتی ہیں، افسوس 21ویں صدی میں بھی پاکستان بددیانت اور بد قماش سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں یر غمال ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/