تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
ہم ترقی کی طرف تیزی سے گامزن برق رفتار دنیا میں کمال کی جستجو میں در در کی خاک چھان رہے ہیں ،ہمیں تلاش ہے ایک ایسے کمال کی جہاں پہنچ کرہماری بے چین روح پرسکون ہو جائے اور ہمیں محسوس ہو کہ ہم نے وہ سب کچھ پا لیا ہے جس کی تگ و دو میں ہم نے دن کو دن اور رات کو رات نہ جانا شب وروز کی گردشوں کا تسلسل اپنا سفر طے کرتا رہا ہم اپنی منزل کی طرف گامزن رہے لیکن انجام کار ہمیں وہ گوہر طمانیت مل ہی گیا جس کی تلاش میں ہم نے اپنی زندگی گزار دی ۔
لیکن افسوس کے ہم میں سے بہت کم ہیں جو انجام کار گوہر سکون کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں اکثر و بیشتر عصری جراحتیں ہمیں اس قابل بھی نہیں چھوڑتیں کہ اپنے واقعی کمال کے بارے میں سوچ بھی سکیں ۔حصول کمال کے لئے ہمارا یہ سفر بہت آسان ہو جائے اگر ہم ان شخصیتوں کو اپنا آیڈیل بنا لیں جنکی زندگی کا ہر رخ ایک جلوہ کمال اپنے دامن میں لئے ہمیں دعوت فکر و عمل دے رہا ہے ۔
ولقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ صرف ایک قرآن کا نعرہ نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے کہ جس پر ہم اگر غور کرنے کو تیار ہو جائیں تو زندگی کا رنگ ہی بدل جائے زندگی کے ہر گام پر ہمیں کمال ملے ہر موڑ پر ہمیں کامیابی ملے ۔شک نہیں کہ رسول اکرم (ص) کی ذات ان مفاہیم کا سب سے بڑا مظہر ہے جنکے ذریعہ انسان کمال کی بلندیوں تک پہونچتا ہے .
ان اعلی ٰ مفاہیم کو پختگی عطا کرنے کے ساتھ جو قدرت نے فطری طور پر ہمارے وجود میں نہاں رکھے ہیں پیغمبر کی زندگی ہمارے لئے ان جذبوں میں حدت عطا کرنے کا ذریعہ ہے جو نہ صرف شمع دل پگھلانے کا سبب ہیں انکو اتنا روشن بھی بنا دیتے ہیں کہ اندھیروں کا وجود نہیں رہتا اور یہ روشن جذبات شمع دل کو یوں منور کئے رہتے ہیں کہ انسان کبھی جہالت کی تاریکی کی طرف بھولے سے قدم نہیں بڑھاتا ، حیات پیغمبر کے درخشان اصول ہمارے وجود میں ایسی حقیقتوں کو مجسم کرتے ہیں کہ انسان کبھی جھوٹی دنیا کے جھوٹے زرق برق کی طر ف نہیں بڑھتا اس لئے کہ انسانی وجود کی گہرائیوں آنحضرت(ص) کی سیرت کے تابندہ اصول ان کمالات کی فصل اگا دیتے ہیں جن پر جن کا ثمر انسانیت کی کمال کی ضمانت ہوتا ہے ، اگر ہم پیغمبر اسلام ( ص) کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالیں تو واضح طور پر ہمیں حق ، عدالت ، عشق ، رحمت ، جیسی حقیقتوں کے جلوے نظر آئیں گے اور ہم آپ کو مکارم اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہونچانے والا ایسا صاحب کمال رہبر پائیں گے جو پوری صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو تحفہ میں عطا کیا گیا ہے ۔
اور یہ بات صرف ہم نہیں آلفویس جیسے فرانس کے عظیم اسکالرز بھی ببانگ دہل کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بقول ''اگر ہم ایک بڑے ہدف کو سامنے رکھیں اورسایل کی قلت کے ساتھ اس ہدف کے نتیجہ کی عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی پیمانہ بنانا چاہیں جسکی روشنی میں کامیابی کی پیمایش کی جا سکے تو تاریخ میں ہمیں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم ) کی ذا ت کے علاوہ کوئی دوسری ہستی نظر نہیں آئے گی جس نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو متحرک بنا دیا ،،
شک نہیں کہ یہ شخصیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ہمارا طائر فکر اسکے کمال کی بلندیوں رسائی حاصل کر سکے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نہج البلاغہ کے بعض ان اقوال کا مطالعہ کریں جن میں حضرت علی نے اپنے استاد ، معلم ، پیغمبرۖ ،اپنے محبوب رسول خداۖ کو عظیم ترین اوصاف سے متصف کرتے ہوئے فرمایا : '' خداوند سبحان نے محمدۖ کو مبعوث کیا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے اور ان کی نبوت کو تکمیل تک پہونچائے اس نے آپ کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں سے بھی عہد لیا آپ کی خصوصیات انبیائے ما سبق کی کتابوں میں بیان کیں آپ کی آمد کی بشارت دی ( نھج البلاغہ، صبحی صالح ، ٤٤)
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :'' تیرے فرمان کو پیغمبر ۖ نے شائستہ طریقہ سے انجام دیا ورتیری رضا و خوشنودی کے لئے سب سے زیادہ کوشش کی چاہیے .لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرے ، اور کبھی بھی کاہلی و سستی کا شکار نہیں ہوئے ،تیرے پیغام اور وحی کو نہیں چھپایا اور اسے دل و جان سے قبو ل کیا ۔ اور تیرے احکامات پر عمل کے لئے اس قدر زور دیا کہ باطن تیرے آئین کی روشنی سے منور ہو گئے۔کائنات اور خلقت کے رازوں سے سب کوآگاہ کیااور اپنی تابناکی سے زندگی کی تاریکیوںکو روشن کر دیا ۔ وہ لوگ جو فتنہ و آشوب کے گندے پانی میں ڈوب گئے تھے دوبارہ باہر آئے اور پر سکون ہو گئے جو لوگ نادانی میں غوطہ ور تھے وہ رہائی پا گئے ۔
آپ کی روش استقامت اور پائداری ہے اور آپ کا طریقہ کار لوگوں کی راہنمائی، انکی ہدایت اور انکے ساتھ نیکی کا برتائو ہے آپ کی باتیں دل پراثر کرنے والی اور رسا ہیں اور آپ کا فرماں روان اور نا انصافی کے خلاف ہے ۔
ایک اور مقام پر امیر المومین علیہ السلام یوں فرماتے ہیں :
''آنحضرت ۖ نصیحت ،اور اچھی باتیں بیان کرنے میں اصرا رکرتے رہے اور اسی روش کو آپ نے جاری رکھاسب کو عقل ،حکمت اور اچھائیوں کی دعوت دی۔
یا ایک اور مقام پر مولائے کائنات ذات پیغمبر کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں :
''یہاں تک کے خداوند تعالی نے محمد ( ص) کو پیغمبری پر مبعوث کیا اور دہر کے تصدیق نامہ کو آپ کے ہاتھ میں دیا اور آپ سے کہا کہ اعمال خیر کرنے والوں کو اسکی جزا کا مژدہ سنائیں ، اور ڈھیٹ ، کج فکر لوگوںکو اسکے عذاب سے ڈرائیں ، آپ عہد طفلی میں سب سے بہترین خدا کی مخلوق تھے اوربڑھاپے وضعیفی میں سب سے محترم نظر آتے تھے ،آپکی سرشت و فطرت دوسرے پاک طینت لوگوں سے زیادہ پاک و صاف تھی ، آپکی بخشش عطا کہ شان یہ تھی کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چلتا اور ضرورت مندوں کی آرزوو خواہش سے کہیں زیادہ ہوتی ،،۔
ایک دوسری منزل پر آپ کہتے ہیں :
''.... آپ کی زندگی کا نصب العین لوگوں کی بھلائی اور اچھائی ہے آپ کی آرزو کامیابی کی موت ہے ، آپ دنیا کو رنج و محن کی جگہ سمجھتے ہیں اور قیامت کو انصاف ملنے اور حساب و کتاب کی جگہ ، اور جنت کو اپنی اور دیگر نیک اعمال کرنے والوں کی کاوشوں کا صلہ ... یقینا یہ خدا کی جانب سے بھیجا گیا رسول حریت اپنی پیدائش کے ذریعہ دیگر مخلوقات کے لئے نعمت و شرف اور خوشیوں کا سبب بن گیا ...ایک حاذق اور تجربہ کارطبیب جس نے اپنے مرہم کو خود ہی تیار کیا اور اپنے دیگر آلات طبابت کو اس طرح تیار کیا جس کے ذریعہ دل کے اندھوں بہروں اور گونگوں کو شفامل گئی ۔
آپکے اخلاق و کردار کو نہج البلاغہ میں اس طرح پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''آپ زمین پر بیٹھتے تھے اور ایک بندہ کی طرح کھاتے تھے ، دو زانو ہو کر زمین پر بیٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی جوتیاںٹانکتے تھے۔ اپنے پھٹے ہوئے لباس کو خود ہی سیتے تھے ، برہنہ و بغیر پالان کی سواری پر سوار ہوتے تھے ۔
یقینا ایسی عظیم ہستی اس لایق ہے کہ اس کی زندگی کو نمونہ بنا پر ان نقوش پر قدم رکھا جاے جو جاتے جاتے اس عظیم ہستی نے ہمارے لئے چھوڑیں ہے کہ صرف یہ نقوش نہیں ہماری کامیاب زندگی گزارنے کا وہ نسخہ ہیں جن پر جو بھی چلا ہے وہ کامیاب ہوا ہے ۔ /۹۸۸/ ن۷۰۴