تحریر: ثاقب اکبر
گذشتہ برس مئی میں ریاض میں ”اسلامی کانفرنس“ کی صدارت اور دیگر تقریبات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیدھے اسرائیل جا پہنچے۔ ہم نے اسی زمانے میں لکھا تھا کہ یہ جدید تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ امریکی راہنما سعودی عرب سے براہ راست اسرائیل گئے، جو اس امر کا اظہار ہے کہ اب سعودی عرب کو کھلے بندوں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کیسے اور کس سطح کے تعلقات رکھتا ہے۔ امریکی صدر نے اسرائیل پہنچ کر ایک نئی بات کہی اور وہ یہ تھی کہ امریکہ اس علاقے کے لئے دو ریاستی کے علاوہ یک ریاستی حل پر بھی غور کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کی ریاست کا نظریہ ختم ہو جائے گا اور یہاں صرف اسرائیل باقی رہے گا۔ ایسا ہونا اسی صورت میں ممکن ہوسکتا تھا کہ امریکہ صہیونیوں کی خواہش کے مطابق بیت المقدس کو ان کا دارالحکومت تسلیم کرلے۔ یہی وہ ایام تھے، جب صہیونی ریاست کے قیام کو 69 برس پورے ہوئے اور ان دنوں اسرائیل میں اس ریاست کی سالگرہ منائی جا رہی تھی اور دوسری طرف فلسطینی یوم نکبہ منا رہے تھے، یعنی تباہی و بربادی کا دن۔ فلسطینیوں کے لئے یہ ان کی تاریخ میں تباہی اور بربادی ہی کا دن ہے، جبکہ باہر سے لا کر آباد کئے گئے صہیونیوں کے لئے یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے۔
1947ء اور 1948ء میں جب فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالا گیا اور اسرائیل نام کی ایک نئی ریاست سرزمین فلسطین پر مسلط کی گئی تو اس وقت 24 لاکھ فلسطینی اس سرزمین پر بستے تھے اور ان کی چھوٹی بڑی بستیوں کی تعداد 1300 کے قریب تھی۔ اسرائیل کے قیام کے لئے انہیں بزور طاقت گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ 15 مئی 1948ء کو شمالی فلسطین کی 774 بستیوں اور دیہات پر غاصب صہیونیوں نے برطانیہ کی ایماء پر قبضہ کر لیا۔ 531 شہروں اور قصبوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ اس دوران میں 70 مرتبہ فلسطینیوں کا اجتماعی قتل کیا گیا اور اس زمانے میں تقریباً 15000 فلسطینی لقمہ اجل بن گئے۔ اس روز سے آج تک فلسطینی 14 مئی کو یوم نکبہ کے طور پر مناتے چلے آرہے ہیں، جبکہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل اس روز کو اپنے قیام کی سالگرہ کے طور پر مناتی ہے۔ بعدازاں گذشتہ دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر 14 مئی 2018ء کو قدس شریف میں امریکی سفارتخانے کا افتتاح کر دیا گیا اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، جو اپنے وطن کی پامالی اور اپنے مادر وطن کے دارالحکومت کو علامتی طور پر صہیونیوں کے ہاتھ دینے کے امریکی فیصلے کے خلاف خالی ہاتھ اور نہتے احتجاج کر رہے تھے۔
گذشتہ برس جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تو بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق مبصرین امریکی صدر کے اس اعلان کو واشنگٹن کی عشروں پرانی پالیسی سے انحراف قرار دے رہے تھے۔ بی بی سی نے اپنی مذکورہ رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ دو ریاستی حل مشرق وسطیٰ میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے، جس پر عرب لیگ، یورپی یونین، روس اور اوباما دور تک امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنما اتفاق کرتے رہے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی اسرائیلی حدود کے مطابق غرب اردن، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں اس فریم ورک کی تائید کی گئی ہے۔ بالآخر امریکہ نے دو ریاستی نظریئے کے خاتمے کا 14 مئی 2018 کو عملاً اعلان کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس موقع پر نہتے فلسطینیوں کے صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں قتل عام کا ذمے دار امریکہ نے حماس کو قرار دے دیا ہے۔ امریکہ واحد حکومت ہے، جس نے 62 انسانوں کا جدید ترین اسلحے سے خون بہانے والوں کو بے گناہ اور جن کا خون بہا ہے، انہیں گناہ گار قرار دیا ہے۔ اس موقع پر 2700 سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے صدر کے علاوہ یورپی ممالک نے بھی اس ظلم و تشدد کی مذمت کی ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اس وقت بھی امریکی فیصلے کی مذمت کی، جب امریکی صدر نے بیت المقدس میں اپنے سفارتخانے کو منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت سے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں امریکی فیصلے کو مسترد کیا گیا تھا۔
گذشتہ دسمبر میں پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس موقع پر ایک پالیسی بیان جاری کیا تھا، جب امریکی صدر نے بیت المقدس میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ عوام اور حکومت پاکستان امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ شہر بیت المقدس شریف منتقل کرنے کے اقدام پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں، یہ اس شہر کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو بدلنے کی کوشش ہے۔ ایسا اقدام عالمی قوانین، سلامتی کونسل کی قراردادوں خصوصاً سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 478 جو 1980ء میں منظور کی گئی، کی خلاف ورزی ہے۔ اس اقدام نے دہائیوں سے قائم عالمی اتفاق رائے کو پس پشت ڈال کر خطے کے امن اور سلامتی کو خطرات لاحق کرنے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی صورتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ عالمی طور پر تسلیم شدہ معیارات منجملہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور القدس شریف کو دارالخلافہ بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک آزاد، مستقل اور فعال فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ انتہائی افسوس سے کہا جاتا ہے کہ عالمی برادری کے مطالبات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قدس شریف کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو ضرورت کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گذشتہ روز بھی پاکستان کے وزیراعظم نے 18 مئی بروز جمعہ یوم یکجہتی فلسطین منانے کا اعلان کرکے پاکستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ترکی نے اسی روز او آئی سی کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ اگرچہ اس اجلاس کی ایک علامتی حیثیت ہوگی، تاہم اسے ایک مثبت قدم قرار دینا چاہیے۔ ترکی نے اسرائیلی مظالم کے ردعمل کے طور پر تل ابیب اور واشنگٹن سے مشاورت کے لئے اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیا ہے، جبکہ اسرائیلی سفیر کو ناپسندیدہ عنصر قرار دے کر ترکی سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عالم اسلام اگر سنجیدگی سے اس موقع پر اپنے اتحاد کا فیصلہ کرے تو یقینی طور پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس موقع پر یہ امر واضح ہو جانا چاہیے کہ امریکہ فلسطین کی ریاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ غرب اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں کو مستقبل میں اسرائیل کا ناگزیر حصہ قرار دینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ غزہ کو مہاجروں کی ایک بستی کے طور پر اس طرح سے باقی رکھا جائے گا کہ جس کے چاروں طرف سنگینوں، توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ وحشی اسرائیلی کھڑے ہوں گے، یہاں تک کہ غزہ کے لوگ بھی اسرائیل کے سامنے سر جھکا دیں۔ البتہ اس مرحلے کے واضح اعلان سے پہلے امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ اہم مسلمان ریاستوں خاص طور پر عربوں کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اس منصوبے میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دیں گے یا کم از کم مخالفت نہیں کریں گے۔
چند روز قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف جدوجہد کو ترک کرکے ان کے ساتھ ہم آہنگی کا راستہ اختیار کریں۔ اسی نظریئے کو زیادہ واشگاف انداز سے اختیار کرنے پر امریکہ دیگر ریاستوں کو بھی آمادہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے اور بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کو منتقل کیا جانا اس منصوبے کا ایک سنگ میل ہے، جبکہ احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ امریکی صہیونی منصوبے کو تسلیم نہ کرنے والوں کا یہ حشر کیا جائے گا۔ اس موقع پر یہ سوال نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ یہ خواہش بہت بری طرح ناکام ہو جائے گی۔ اس کے لئے ہمارے پاس بہت سے دلائل و شواہد موجود ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کا وہ منصوبہ جو عراق کی تقسیم کے بارے میں تھا ناکام ہوچکا ہے۔
فلسطینیوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے بلکہ ان کا قتل عام کرکے خاموش کرنے کا وحشیانہ حربہ بھی ناکام ہوچکا ہے۔ حزب اللہ کا خاتمہ اور لبنان میں اپنی من پسند حکومت کے قیام کا منصوبہ بھی رسوا ہوچکا ہے۔ شام میں اپنی مرضی کی فرمانبردار حکومت قائم کرنے کی آرزو بھی خاک میں مل چکی ہے۔ ایران پر پابندیاں عائد کرکے اسے فلسطینیوں کی حمایت سے باز رکھنے کے لئے تمام تر ہتھکنڈے نامرادی سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ عالم اسلام میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ اقدامات کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ غیر مسلم جن میں یہودی اور مسیحی بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں، وہ بھی اسرائیلی مظالم پر احتجاج کناں ہیں۔ انسانیت کے ضمیر کو خاموش نہیں رکھا جاسکتا۔ داخلی طور پر اسرائیل آج جتنا خوفزدہ ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ حال ہی میں جولان میں اسرائیلی تنصیبات اور فوجی اڈوں کو شام کے میزائلوں نے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا غرور ٹوٹ چکا ہے، لہٰذا امریکہ اور اسرائیل شاید اپنی ناکام پالیسیوں کو کامیاب بنانے اور اپنے آپ کو طاقتور ظاہر کرنے کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں، وقت جلد اس بات کو ثابت کرے گا کہ یہ ان کی ایسی آرزوئیں ہیں کہ جن کے پودے ریت پر اگے ہیں اور وقت کا ایک ریلہ انہیں بہت جلد بہا کر لے جائے گا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰