تحریر : سید میثم ہمدانی
ماہ مبارک رمضان اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ اختتام پذیر تھا۔ مومنین شب بیداریوں اور لیالی قدر کے بابرکت لمحات میں خدا کے حضور رازونیاز کرنے کے بعد خداوند تبارک و تعالی کی اس عظیم نعمت پر شکر ادا کرنے کیلئے عید فطر کے موقع پر "اللھم اھل الکبریاء و العظمہ و اھل الجود و الجبروت ۔ ۔ ۔" کے حسین نغمے کے منتظر تھے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ چاند کا چکر ان کو اس ملکوتی فضا سے دور لے جا کر حیرت کی وادی میں متحیر و پریشان کر دے گا۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس تحریر میں اسی بارے میں کچھ بات کریں گے انشاء اللہ کہ مفید ہو۔
درحقیقت اسلام نام ہی ایسے دین کا ہے جو صرف کتابوں میں مضبوط ہونے کیلئے نہیں آیا بلکہ اس کا ہر ایک ایک حکم اور ہر ایک جزء زندگی ہے ، حرکت ہے اور نفاذ ہے۔ اگر اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک منظم حقیقت کا نام ہے کہ جس کے بارے میں عمومی طور پر ہم ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اسلام نظام حیات ہے۔ نظام بغیر ناظم کے منظم نہیں رہتا۔ اسلام ایسا دین ہے اگر نافذ نہ ہو تو قابل عمل نہیں ہے، نافذ ہونے کیلئے نفاذ کرنے والے کی ضرورت ہے ۔ اسی وجہ سے اسلامی احکام بہت آسان بھی ہیں اور بہت سخت بھی ہیں۔ آسان اس اعتبار سے ہیں کہ اگر نافذ کرنے والا حاکم شرع موجود ہو تو اسلام کے مطابق بالفطرت احکام آسان ہیں لیکن جب کوشش یہ ہو کہ اسلام کا نفاذ تو ہو لیکن حاکم شرع قابل قبول نہ ہو تو بظاہر چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی مشکل ہو جاتا ہے اور حتی ایک مہینہ کا شروع اور اس کا اختتام بھی اختلاف کا باعث بن کر مشکل امر بن جاتا ہے۔
امام علی علیہ السلام خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں کہ " اَما وَاللہ لَقَدْ تَقَمَّصھا فُلان وَ اِنَّہ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلّی مِنْھا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحا. یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَلا یَرْقی اِلَی الطَّیْرُ فَسَدَلْتُ دُونَھا ثَوْباً، وَ طَوْیتُ عَنْھا کَشْحاً " امام خلافت (حاکمیت شرع) کے مسئلہ میں چکی کی لاٹھ کی مانند ہے (کہ جس کے بغیر جس طرح چکی کا نظام فاسد ہے اسی طرح زمانے کی چکی بھی نہیں چل سکتی)۔ تو اصل ماجرا تو یہی ہے کہ جب تک اسلام کو اس کی لاٹھ سے دور رکھا جائے گا تو وہ گڑبڑاتا ہی رہے گا۔ خدا نے جس نظام کی طرف دعوت دی ہے اگر انسان اسکی حقیقت کو بھانپ لے اور اپنی فردی و معاشرتی زندگی میں اس کا نفاذ کر لے تو قدم قدم پر ایسے مسائل میں پھنسنے کے بجائے خلقت ہستی کے اصل ہدف کی طرف مائل ہو جائے گا اور یہی وہ راستہ ہے کہ جہاں شیطان اپنے اعوان و انصار کے ساتھ خیمہ زن ہے تاکہ اولاد آدم کو اپنے اصلی ہدف سے دور رکھے۔ بہر حال اب مسئلہ چاند کا؛
انسان اپنی زندگی گذارنے کیلئے ابتدائے خلقت سے شب و روز کے حساب وکتاب اور راستوں کی راہنمائی جیسے دوسرے امور کیلئے اس آسمان و زمین، چاند اور ستاروں سے مدد لیتا رہا ہے۔ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خداوند تبارک و تعالی کی جانب سے مبعوث ہونے کے بعد مسلمانوں کو اپنے اعمال انجام دینے کیلئے جس تقویم کا استعمال کیا گیا وہ قمری تقویم ہے۔گذشتہ ایام سے علم افلاک و نجوم کے ماہرین نے اس موضوع پر سیر حاصل مفید کتب تالیف کی ہیں اور اپنی ماہرانہ رائے بیان کی ہے۔ اگر یہ تقویمی مسائل روزمرہ کے عمومی کاموں کی حد تک محدود رہتے تو اتنی زیادہ دقت محسوس نہ ہوتی لیکن مسئلہ وہاں بنتا ہے جب تقویم ہمارے شرعی مسائل کے ساتھ رابطہ استوار کر لیتی ہے اور جس حد تک یہ رابطہ زیادہ ہوتا جاتا ہے اسی حد تقویمی مسائل کی اہمیت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ہو سکتا ہے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ ہمیشہ عید الفطر کا مسئلہ ہی اتنی اہمیت اختیار کیوں کر جاتا ہے؟ قمری تاریخ تو باقی احکام سے بھی مرتبط ہے ؟ بطور مثال فروع دین میں سے حج بھی ایک رکن ہے جو اسلامی مہینہ ذی الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے یا اسی طرح عید ضحی کے موقع پر بھی تاریخیں متفاوت ہوتی نظر آتی ہیں لیکن وہاں اتنی پریشانی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ قمری نظام تقویم کی عیدالفطر کے موقع پر اسلامی دو ضروری احکام میں تعارض کی شکل اختیار کرنا ہے۔ شریعت کے حکم کے مطابق رمضان المبارک کے ایام میں روزہ رکھنا واجب ہے جبکہ عید الفطر کے دن روز رکھنا حرام ہے، پس رمضان المبارک کا اختتام خصوصا جب تیس دن سے پہلے ہو رہا ہو تو اگر رمضان المبارک کا ظاہرا یہ تیسواں دن عیدالفطر ہو یعنی شوال کا پہلا دن ہو تو اس دن روزہ رکھنا حرام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس دن روزہ رکھنا واجب ہے۔ لہذا ان دو احکام شرعی کا تعارض اس دن کے چاند کو چار چاند لگا دیتا ہے اور اس کی اہمیت اس حد تک زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہر فرد جو حکم شرعی کے بارے میں ذمہ داری کا احساس کر رہا ہو وہ اس بات کو جاننے کے درپے ہوتا ہے کہ بالاخر چاند نظر آیا یا نہیں؟ اور اس بنا پر اسکی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ یہ پریشانی اس وقت بہت زیادہ ہو جاتی ہے جب بعض گواہیاں ایسی سامنے آجائیں کہ جن کے مطابق عیدالفطر ہو جبکہ دوسرا گروہ کہے کہ نہیں آج رمضان المبارک کا تیسواں روزہ ہے۔
اس اہمیت کی بنا پر کچھ احباب اور بزرگان کی فرمائش پر اس موضوع کو مفصل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
سب سے پہلے مسئلہ کی شرعی حیثیت کو ولی امر مسلمین کے فتاوی کی روشنی میں بیان کئے دیتے ہیں جبکہ مقالہ کے آخر میں بعض دیگر مجتہدین عظام کا نظریہ بھی بیان کیاجائے گا۔
رویت ہلال کے حوالے سے یہ بات کی جاتی ہے یا کی جا سکتی ہے کہ موجودہ زمانے میں سائنس اور فلکیات سے متعلق علوم اس حد تک ترقی کر چکے ہیں کہ وہ کئی عشروں پر مشتمل چاند کی حرکت اور اس کے نظر آنے یا نہ آنے اور کس دن بلکہ کس وقت اور کتنے منٹوں تک نظر آتے رہنے اور اس کے دیکھے جانے کے مقامات کے بارے میں بہت واضح انداز میں پیشگوئی کر سکتے ہیں پھر شرعی مسائل میں چاند کو دیکھنے کے حوالے سے کیوں نہ اس کام کو سائنسدانوں کے حوالے کر دیا جائے؟ جس طرح باقی کلینڈر موجود ہیں اسی طرح قمری کلینڈر تشکیل دے کر ایک ہی مرتبہ پورے سال کے چاندکو تشخیص دے دیا جائے؟
چاند کے اثبات کیلئے اسلامی روایات (شیعہ سنی) اور فقہی احکام میں منجم کی رائے کو معتبر نہیں مانا گیا۔نجومی کی رائے یا کلینڈر اس مسئلہ میں ممد و معاون تو ہو سکتی ہے لیکن حجت شرعی نہیں ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
صم للرؤیۃ و افطر للرؤیۃ (وسائل الشیعہ ج ۱۰ ص ۲۵۷ )
اسی طرح اہلسنت منابع حدیثی میں ہے کہ :
لاَتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ وَلاَ تُفْطِرُوْا حتّٰی تَرَوْہُ فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہ (بخاری: ۱/۲۵۶)
ایسی ادلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے چاند کے اثبات کیلئے فقہائے شیعہ و سنی صرف علم نجوم و افلاک کو معتبر نہیں سمجھتے بلکہ چاند کے نظر آنے کو بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔
چشم مسلح: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نگاہ میں رویت ہلال کیلئے چشم مسلح و غیر مسلح میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چشم مسلح سے مراد آلات کی مدد سے چاند کو دیکھنا جبکہ غیر مسلح سے مراد صرف آنکھ سے چاند کو دیکھنا ہے۔ البتہ یہاں اس بات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ چشم مسلح سے مراد یہ نہیں ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بطور اصطلاح آسمان کو اسکین کیا جائے اور کہا جائے کہ چاند موجود ہے! چونکہ قارئین جانتے ہیں کہ چاند تو ہمیشہ ہی موجود ہوتا ہے جس کی مفصل بحث ماہرین علم افلاک و نجوم نے مختلف مقامات پر پیش کی ہوئی ہے، سادہ الفاظ میں عوام الناس کی تقریب فکری کیلئے یوں کہا جائے گا کہ مہینے کے تقریبا نصف ایام گذرنے کے بعد چاند ختم ہو جاتا ہے اور جب نیا مہینہ شروع ہوتا ہے تو قمری اعتبار سے اس مہینے کے شروع ہونے سے چند دن قبل (دو یا تین دن) چاند پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ نظر آنے کے قابل نہیں ہوتا۔ چاند کو دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سورج کی شعائیں چاند کے اس حصے پر جو ہماری آنکھ کے سامنے اور زمین کے افق سے مناسب بلندی پر واقع ہو قرار پائیں۔ اس حالت میں آنکھ چاند کو دیکھ سکتی ہے جس کو رویت ہلال کہا جاتا ہے۔ رویت ہلال میں انسانی آنکھ کا مقولہ محکوم بہ تشکیک ہے۔ یعنی گذشتہ ایام ہی سے انسانوں کے استعداد میں تفاوت اور اختلاف رہا ہے ۔ بعض لوگوں کی نظریں تیز ہوتی ہیں جبکہ بعض ہو سکتا ہے اس حد تک باریک بینی سے نہ دیکھ پائیں۔ اول ماہ شوال کا چاند جو چند ایک گھنٹوں کا مہمان ہوتا اور اس حد تک واضح نہیں ہوتا کہ سب لوگ اس کو دیکھ پائیں۔ اس کی رصد کیلئے تجربہ بہت ضروری ہے کہ کس سمت میں کس وقت دیکھا جائے۔ گذشتہ ادوار میں جب جدید آلات موجود نہیں تھے تو فوجیں دشمن افواج کی رصد کیلئے ماہر تیز بین افراد سے مدد حاصل کرتی تھیں، ایسے افراد کسی بلند مقام پر یا مخصوص جگہ پر کھڑے ہو کر دشمن کی نقل و حرکت حتی ان کی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں بھی خبر دے دیتے تھے جبکہ عام انسان کو اس افق پر کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا تھا۔
جب چشم مسلح کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ایسے آلات ہوتے ہیں کہ جس کے ذریعے قدرتی آنکھ سے نظر آنے والی شے کو دیکھنے کیلئے سہولت فراہم کی جا سکے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہم عینک کی مثال دے سکتے ہیں۔ کتاب پرلکھے گئے حروف کو پڑھنے کیلئے ایسے افراد جن کی نگاہ کمزور ہوتی ہے عینک کا استعمال کرتے ہیں۔ عینک کا استعمال موجود حروف کو پڑھنے کیلئے کیا جاتا ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ عینک کو استعمال کرتے ہوئے آپ لاموجود الفاظ کو پڑھ سکیں۔ اسی طرح جب رویت ہلال کو چشم مسلح کے ذریعے دیکھنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ٹیلیسکوپ یا دوربین جیسے ایسے آلات کا استعمال ہے کہ جو قدرتی آنکھ کے ذریعے دکھنے والی شےکو دیکھنے میں سہولت فراہم کریں۔ اسی وجہ سے بعض منجم حضرات یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اول ماہ شوال کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے لہذا چشم مسلح کے ذریعے جب اس چاند کو مخصوص مقام پر اور مخصوص درجے پر دیکھ لیا جائے تو پھر کچھ دقت کرنے پر اسی مقام پر چاند کو عام آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس رویت ہلال کو کیمرے کی آنکھ سے بھی ضبط کیا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق اس بنا پر اگر رویت کا عنوان باقی رہے یعنی یہ کہا جائے کہ چاند دیکھا گیا ہے تو اس میں آلات سے مدد لینا صحیح ہے۔
غروب: آیت اللہ خامنہ ای کی نگاہ میں چاند کا مغرب سے پہلے نظر آنا اس شرط کے ساتھ کہ یہ چاند سورج کے غروب ہونے کے بعد غروب ہو اور اپنے غروب سے پہلے قابل رویت ہو تو معتبر ہے، اگر ان مسائل میں سائنسی تجزیئے یقین کا سبب نہ ہوں تو معتبر نہیں ہیں۔
شرائط: چاند کے شرعی اثبات کیلئے اکثر مجتہدین کے مطابق جو راستے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے خود شخص مکلف کا چاند کو دیکھنا، دو عادل گواہوں کا چاند کے نظر آنے پر گواہی دینا، چاند کے نظر آنے کی ایسی شہرت جو اطمینان کا باعث ہو یا ماہ رمضان المبارک کے تیس دن مکمل ہو جانا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق ان راستوں کے علاوہ ایک راستہ حکم حاکم ہے۔ یعنی اگر مختلف علاقوں میں چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے حوالے سے شک موجود ہو تو حاکم کا اول ماہ شوال کا حکم مکلف کیلئے کافی ہے اور اس بنا پر عیدالفطر کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
منبع: اسلام ٹائمز
/۹۸۹/ ن۹۴۰