رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آسکرانعام یافتہ ادارکارہ کیٹ بلینچٹ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں کے اندر میانمار فوجیوں کے ظالم و ستم کے مارے روہنگیا مسلمانوں کی تکالیف اور درد کو دور کرنےکےلیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
اقوام متحدہ کی سفیر برائے خیر سگالی کیٹ بلینچٹ نے بتایا کہ انہوں نے میانمار فوجیوں کے مظالم کی وہ داستانیں سنی جس کو سن کر مجھے اپنے بچوں کی آنکھوں میں روہنگنا پناہ گزینوں بچوں کی صورتیں نظر آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی عورت کا ریپ، ان کے رشتے داروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کرنا اور زندہ بچوں کو بھڑکتی ہوئی آگ کی نذر کردینے والے واقعات سن کر انتہائی تکلیف ہوئی۔
اداکارہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک ماں ہوں اور اپنے بچوں کی آنکھوں میں پناہ گزین بچوں کی صورتیں دیکھتی ہوں جن سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ملاقات ہوئی، ایک ماں کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ اس کا بچہ آگ میں پھینک دیا جائے۔
دومرتبہ اکیڈمی ایورز انعام یافتہ ادارکارہ نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں سے ملاقات کا تجربہ کبھی نہیں بھولے گا۔ واضح رہے کہ رواں برس مارچ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مندوب نے میانمار میں مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والی کارروائی کے 6 ماہ بعد اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ میانمار میں دہشت گردی اور افلاس کی مہم کے نام پر ریاست رخائن میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔
واضح رہے کہ میانمار میں بدھ مت اکثریت روہنگیا کے لوگوں کو مقامی تصور نہیں کرتے جبکہ روہنگیا خاندان صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں۔ آخر کار 1982ء میں تمام روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا گیا جس کے نتیجے ریاست نے بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 25 اگست کو میانمار میں اراکان روہنگیا آرمی کی جانب سے سرکاری فورسز پر حملے کے بعد ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی اور روہنگیا آرمی نے سیکڑوں مسلمان خواتین کا ریپ، مرد اور بچوں کا قتل اور ان کے گھر نذر آئش کردیئے تھے جس کے نتیجے میں 7 لاکھ روہنگیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو کر بنگلہ دیش پہنچے۔
کیٹ بلینچٹ نے رواں برس مارچ میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور پناہ گزین خاندان سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں پر صرف گزشتہ سال ہی حملے نہیں کیے گئے۔
اداکارہ نے بتایا کہ گل زہرا نامی خاتون 1978ء میں ان 2 لاکھ روہنگیا پناہ گزین لوگوں میں شامل تھے جو روہنگیا بدھ مت اور فوجیوں کے ظالم و ستم کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔/۹۸۹/ف۹۴۰/