تحریر: سید مرتضیٰ موسوی
یہ ایام، ایام فاطمیہ ہیں یعنی ہر سال ۱۳ جمادی الاول سے لیکر ۳ جمادی الثانی تک ۲۰ دنوں کے اس عرصے کو ایام فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ایام ہیں جن میں حضرت محمدؐ کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کی شھادت کے مناسبت سے عزاداری کی جاتی ہے۔ چونکہ تاریخ میں حضرت زہراء (س) کی شھادت کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق آپ کی شھادت کا جانسوز واقعہ ۱۳جمادی الاول جبکہ اکثر روایات کے مطابق ۳ جمادی الثانی کو پیش آیا ہے۔ یہ ایام غم کوئی معمولی ایام نہیں اور نہ ہی اس کا بس ایک دن غم ہے، یہ بالکل ماہ محرم کی طرح ہیں، ان ایام کا ہر ایک دن یوم عاشورا ہے۔ یہ اسی حق اور باطل کی ابتداء ہے یہی وہ حق زہراء ہے، جو صراط مستقیم ہے، علی ولی اللہ پر پہلی شہادت ہے۔ یہ کوئی عام ایام نہیں ہیں، یہ عاشورا ہے۔ عاشورا سے پہلے جس کا پرسہ لینے کے لئے پیغمبرؐ تشریف لاتے ہیں، وہ ایام فاطمیہ ہیں۔ اسی بنا پر علماء نے ان ۲۰ دنوں کو ایام فاطمیہ کا نام دے کر عزاداری منانے کا حکم دیا ہے۔ چونکہ ایام فاطمیہ کا احیاء دین کا احیاء ہے۔ جس طرح محرم و صفر عزائے حسینیؑ کے ایام ہیں، اسی طرح سے جمادی الثانی ایامِ فاطمیہ ہیں۔
ایامِ فاطمیہ کو زندہ کرنا صرف تبرکاً ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں کربلا اور عاشورا کی طرح ان کا بھی فلسفہ ہے۔ جس طرح عاشورا اور کربلا کے زندہ ہونے سے اسلام زندہ ہو گا اور دین کے زندہ ہونے سے بشریت زندہ ہو گی، اسی طرح فاطمیہ و ایامِ فاطمیہ کا احیاء کرنے سے دین زندہ ہو گا، اور دین کے زندہ ہونے سے دیندار بھی زندہ ہوں گے۔ اس حوالے سے رہبر معظم فرماتے ہیں کہ "ایام فاطمیہ کی مجلسیں زیادہ سی زیادہ منعقد کرو ،ہمیں چاہیئے کہ ایام فاطمیہؑ کو عاشورا کی طرح برپا کریں۔ اس دن اپنی دوکانوں کو بند رکھیں اور کاروبار کی تعطیل کریں، اور یوں جناب زہراؑ کا احترام کیجئے، کاروباری افراد، دوکاندار اور بازار سے متعلق حضرات ان ایام کا احترام کریں، اس دن تعطیل کیجئے تاکہ خدا کی منشاء سے جناب فاطمہ زہراؑ کی برکات سے بہرہ مند ہو سکیں"۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجالس فاطمیہ کے بعد نذر کے موقع پر کسی عزادار نے رہبر معظم سے کہا کہ کچھ لوگ تعجب اور شکایت کرتے ہیں کہ آپ جسمانی ضعف و کمزوری کے باوجود مجالس و عزاداری فاطمہ زہراء(س) میں شروع سے لیکر آخر تک شرکت کرتے ہیں جبکہ آپ کو چاہیئے کہ اپنے گھر پہ ہی ایام فاطمیہ منائیں۔، تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ "وہ لوگ نہیں جانتے کہ میں اپنے ملک کے پورے سال کا رزق بی بی فاطمہ (س) کی مجالس میں شرکت کرکے ہی حاصل کرتا ہوں"۔ اور مرحوم آیت اللہ تقی بہجت نے فرمایا! "ایام فاطمیہ میں کالے کپڑے پہنو، کوئی پوچھے کہ محرم نہیں ہے کیوں کالے کپڑے پہنے ہیں تو یہ مت کہنا کہ فاطمہ (س) کا یوم شہادت ہے، بلکہ یہ کہو نبی کی بیٹی کا سوگ ہے"۔ آیت اللہ صافی گلپائیگانی ایام فاطمیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "فاطمیہ ایک تاریخ ہے۔ فاطمیہ یعنی ظالموں کے سر پر فریاد،فاطمیہ یعنی حق کی باطل پر کامیابی کی خاطر جہاد،فاطمیہ یعنی حضرت مہدی(عج) کی عالمی اور الہٰی حکومت کا دن ہے"۔
جی ہاں! فاطمیہ عاشورا ہے، فاطمیہ شب قدر ہے، فاطمیہ غدیر اور نیمہ شعبان ہے، فاطمیہ یعنی ظلمت پر نور کی کامیابی کا دن ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کسی بھی عورت کی زندکی کم از کم تین اہم مراحل (بیٹی، بیوی اور ماں) سے گزرتی ہے۔ البتہ حضرت زہراء (س) کی زندگی کا ہر پہلو اسوہ نمونہ ہے۔ چونکہ بیٹی کے دوران آپ نے اپنے والد گرامی کے ساتھ ایسی برتاؤ روا رکھا کہ آپ نے ام ابیھا یعنی اپنے باپ کی ماں کا لقب پایا، یعنی آپ کی خدمت اس قدر تھی کہ گویا کوئی ماں اپنے لال کے لئے جیسے خدمات انجام دیتی ہو اور بیوی کے زمانے میں آپ کی خدمات اس قدر نمایاں تھی کہ فزتُ برب الکعبہ کے دعویدار مولا علی ؑ نے فرمایا "میری کامیابی کے پیچھے فاطمہ (س) کا ہاتھ ہے۔ اگر فاطمہ میرے ساتھ نہ ہوتیں تو علی کبھی کامیاب نہ ہوتے"۔ اور جب آپ ماں کی درجے پہ فائز ہوئیں تو اپنے اولادوں کی اس طرح تربیت فرماتیں ہیں کہ جوانان جنت کی سرداری آپ کے دونوں فرزندوں کے حصے میں آجاتی ہے۔ حضرت فاطمہ الزھرا (س) اپنی مختصر سی عمر میں سیدۃالنساء العالمین کے درجہ پر فائز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ یہ خاتون تاریخ کی تمام بزرگ اور مقدس خواتین سے افضل ہیں، کیا سبب ہے کونسی طاقت ہے یہ کونسی عمیق باطنی قدرت ہے، جو ایک انسان کو اتنی کم مدت میں معرفت، عبودیت، تقدّس، اور روحانی بلندیوں کا آسمان بنا دیتی ہے، یہ خود اسلام کا ایک معجزہ ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا (س) نے فرمایا خداکی قسم ! اگر لوگ حق کو حقدار کے سپرد کردیتے اور نبیؐ کی عترت کی پیروی کرتے تو دو افراد بھی خدا کے بارے میں اختلاف نہ کرتے۔ (یعنی پورے عالم میں اسلامی حکومت ہوتی)۔
آپ سلسلہ عصمت کی تیسری کڑی ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت ۲۰ جمادی الثانی ۵ بعثت کو مکہ میں ہوئی آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفیٰؐ اور والدہ ماجدہ جناب حضرت خدیجۃ الکبریٰ ہیں اور آپ کی شھادت ۱۳ جماد ی الاول یا ۳ جمادی الثانی ۱۱ ہجری کو ہوئی۔ آپ جنت البقیع (مدینہ) میں مدفون ہیں۔ یوں آپ نے کل ۱۸ سال اس دنیا میں عمر گزاری، اور اسی مختصر عرصے میں تا قیامت آنے والی خواتین بلکہ نہ فقد خواتین تمام انسانیت کے لئے اسوۂ نمونہ کے طور پر نمایاں رہیں، مگر کلمہ گو مسلمانوں نے آپ کے بابا کی رحلت کے بعد ایسی مصیبتیں ڈھائین کہ ۱۸ سال کی عمر میں آپ کی کمر خم ہوگئی، بال سفید ہو گئے اور آپ کو کہنا پڑا " اے بابا! آپ کے بعد تیری امت نے مجھ پہ ایسے مصائب ڈھائے کہ اگر یہ روشن دنوں پہ پڑتی تو اندھیری رات میں بدل جاتے"۔ ہائے افسوس اے بنت محمدؐ تیری قسمت میں یہ تو نہیں تھا کہ پہلو بھی شکستہ ہو، شکم میں محسن بھی شھید ہو جائے اور اب تک تیری لحد بھی بغیر سایہ اور چراغ کے رہے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات ہے کہ مسلمان اپنے رسول کی لاڈلی بیٹی کی شھادت سے بھی بےخبر ہیں۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں ایام فاطمیہ بھی محرم کی طرح منائیں تو یزید کی طرح بی بی زہراء(س) کے قاتل بھی بےنقاب ہوجائیں گے...
اے خاک مدینہ تیری ذروں میں ابھی تک
ہم بنتِ پیامبر کی لحد ڈھونڈ رہے ہیں