رسا نیوز ایجنسی کی ڈان نیوز سے رپورٹ کے مطابق، ھندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے پیشِ نظر نئی دہلی نے بڑے پیمانے پر مظاہرے روکنے کے لیے وادی میں اضافی پیراملٹری پولیس تعینات، عوامی اجتماعات اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
اس کے باوجود نوجوان جمعے کی نماز اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجاٍ سیکیورٹی پر پتھر برسائے جس پر بھارتی فورسز کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سری نگر کے شیرِ کشمیر انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز اور شری مہاراج ہری سنگھ ہسپتال میں 5 اگست سے لے کر 21 اگست کے دوران 152 زخمیوں کو علاج کے لیے لایا گیا۔
مذکورہ افراد پیلٹ گنز کے شاٹ اور آنسو گیس کے شیل لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے ان چند مظاہروں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد نہیں بتائی گئی البتہ ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی وادی میں اس ماہ احتجاجی مظاہروں کے دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ 1989 سے مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جاری جدوجہد کے دوران اب تک 50 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔