02 September 2019 - 14:32
News ID: 441203
فونت
مرجع عظیم الشان حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے ماه محرم سن 1441 ہجری قمری کی آمد کے موقع پر خطباء ، مبلغین اورعزاداروں کو اپنی حکیمانہ ہدایتیں فرمائیں ۔

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی نجف اشرف عراق سے رپورٹ کے مطابق، مرجع عظیم الشان حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے ماه محرم سن 1441 ہجری قمری کی آمد کے موقع پر اہل بیت علیھم السلام کے خطباء ، مبلغین ، شعراء ، نوحہ خوانوں اور عزاداروں کو بیانیہ کی صورت میں اپنی حکیمانہ ہدایتیں فرمائیں ۔

اس بیانیہ کا تفصیل متن مندرجہ ذیل ہے :

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله ربّ العالمين وصلّى الله على سيّدنا محمّد خاتم النبيّين وعلى آله الطيّبين الطاهرين

السلام على بقيّة المصطفين من خلقه وخليفته على عباده إمام العصر (عجّل الله تعالى فرجه الشريف).

السلام على الحسين بن علي (عليه السلام) سيّد شهداء هذه الأمّة والـمَثل الأعلى في التضحية والفداء والنبل والبسالة والعزّة وجميع المعاني السامية الإلهيّة والإنسانيّة، وعلى أولاده وأصحابه وأهل بيته أجمعين.

ہم محرم الحرام کے محترم مہینہ سے روبرو ہیں کہ جو شھادت حضرت امام حسین علیہ السلام ، ان کے اہل بیت اور ان کے اصحاب باوفا کی مظلومانہ شھادت کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں خاندان رسول(ص) پر ظلم و ستم کا عظیم پہاڑ توڑا گیا ، ایسا خاندان جو امت اسلامیہ کی رھبریت سے محروم کردیا گیا اور شھادت کے مرتبہ پر فائز ہوگیا ۔

واقعہ عاشورا اہل بیت اطھار(ع) کی خدا کی راہ میں فداکاری و جاں نثاری اور کلمہ حق کی بلندی ، اقداروں کی تقویت ، حکمت ، عدل و نیکی کی عظیم مثال ہے کہ جو خداوند متعال کی جانب سے پیغمبروں کی بعثت کا مقصد ہے ، جیسا کہ قران کریم نے  فرمایا کہ ولَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(الحديد: ‌25) ۔

اہل بیت علیھم السلام نے بارہا و بارہا واقعہ عاشوراء کو زندہ رکھنے اور مجالس کے انعقاد کی تاکید فرمائی ہے ، اس حوالے سے مومنین پر لازم ہے کہ مجالسیں برپا کریں اور اس میں شرکت کریں کیوں کہ یہ دین و دنیا دنوں میں ان کے حق میں بہتر ہے ، ایسا تصور کریں کہ یہ مصیبت خود ان پر پڑی ہے ۔

مبلغین بھی ان مجالس میں شرکت کو اہمیت دیں اور اسے مومنین کے ایمان و اعتقاد کی تقویت کا وسیلہ جانیں تاکہ ملت اسلامیہ پر خدا کی برکتیں نازل ہوں اور ان کی نیک اعمال پر حصولہ افزائی کی جائے ۔

حقاکہ عاشوراء کی مصیبت مومنین کو خدا اور اولیاء الھی کی یاد تازہ کرتی ہے اور ملت اسلامی کے درمیان دین و دینی اقداروں کے تحفظ کا سبب ہے ۔

اس حوالہ سے عاشوراء اہل علم و تبلیغ  کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے وظیفہ کو بخوبی انجام دے سکیں ، لوگوں کو خدا کی جانب بلائیں اور اہل بیت (ع) کی منزلت کو مسلمانوں کے لئے آئڈیل کے طور پر پییش کریں، یہ نیک سنت تھی اس کا تحفظ ضروری ہے ، اسے دین کی بلندی میں استفادہ کیا جائے ، شعراء ، مبلغین ، خطباء و ذاکرین اور نوحہ خواں حضرات ماہ محرم سے دین کی خدمت میں بخوبی استفادہ کریں، اس حوالہ سے شیعہ مرجعیت نے انہیں کچھ ہدایتیں دینے کا فیصہ کیا ہے۔

1۔ اپنی تقاریر میں‌ قرآن کریم کے پیغام کو عام کریں جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی مقدس کتاب میں حق اور باطل کے درمیان فرق بتایا ہے ۔ اللہ نے اپنی کتاب کو لوگوں کے لئے ہدایت ، روشنی اور بصیرت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ، یہ ایک مبارک ذکر اور دانائی وحکمت سے بھر پور کتاب ہے، نواسہ رسول(ص) نے اللہ کے حکم اور قرآن کریم کی تعلیمات کی پیروری کرتے ہوئے ہی ایک غاصب اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اس لئے تمام مبلغین کو یہ گوشہ اپنی تقاریر میں‌ شامل کرنا چاہئے۔

2۔ آپ کی تقاریر درست اصولوں، مضبوط منطق اور آفاقی جذبوں پر مشتمل ہونی چاہئے۔ تقاریر عام آدمی کی فہم کے مطابق ہو تاکہ وہ قرآن کریم اور حضور اکرم (ص) کی روایات کو با آسانی سمجھ سکے اور تمام شکوک شہبات کو رفع کرسکے ۔

لہذا ایک مبلغ قرآن کریم اور احادیث پر مشتمل دلیلیں پیش کرے اور وحدانیت الھی و قیامت کے اوپر ایمان میں استحکام لائے نیز رسول اسلام اور اہل بیت اطھار علیھم السلام کے نیک صفات کا اپنی تقریروں میں تذکرہ ہے ۔

نہج البلاغہ میں امام علی ابن طالب ( علیہ السلام ) کے فرامین اس کھلا نمونہ ہیں ، کہ جسے اپنی تقریروں میں شامل کیا جاسکتا ہے یہ خطبوں کا یاد خدا سے آغاز ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ امام علی ابن حسین ( علیہ السلام ) کی دعا جو کتاب صحیفہ سجادیہ میں شامل ہے، پیش کرنے کے لیے بہترین مثالیں ہیں۔

۳- اسکالرز اور مبلغین کو ان ربانی اور اخلاقی اقدار کی وضاحت کرنی چاہئے جن کا حکم نبی اکرم اور اہل بیت ( علیہ السلام ) نے دیا، مومنین کو ان اقدار کی یاد دلانا بہت ضروری ہے جو پیغمبر اسلام اور اہل بیت ( علیہ السلام ) کو بہت عزیز تھیں جیسے کہ انصاف، دیانت داری، عقلانیت ، حکمت اور اخلاقیات کہ انہوں نے انہی اقدار کے لئے اپنی جان قربان کردی۔

شعراء کو حضوراکرم اور اہل بیت ( علیہ السلام ) کی مدح میں شاعری کرنی چاہئے اور لوگوں کو ان کے بتائے ہوئے رستے پر چلنے کی ترغیب دینی چاہئے ، مبلغین کو اہل بیت ( علیہ السلام ) کی تعلیمات کو دہرانا چاہئے تاکہ لوگ اپنے مذہبی فرائض اور اخلاقی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر انجام دے سکیں، جیسا کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا : اے شیعوں ! ہمارا زیور بنو نا کہ شرمندگی کا باعث ، لوگوں سے احسن طریقے سے بات کرو اور لغو اور فضول بات چیت سے پرھیز کرو۔

۴- تمام مقررین اپنی تقاریر میں ‌ایسا تاثر ہر گز نہ دیں ‌جو مختلف مکتب فکر کے مابین اختلاف اور دشمنی کا عنصر پیدا کرے بلکہ وہ ایسے الفاظ کا چناو کریں جو مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کریں، چونکہ مسلمانوں ‌کے سبھی مکتب فکر اللہ کی وحدانیت اور رسول اکرم کی نبوت پر کامل یقین رکھتے ہیں اس لئے مقررین ہر گز ایسے الفاظ کا استعمال نہ کریں جس سے ان کی دل آزاری ہو اور تفرقے کا عنصر پیدا ہو۔ اس کے علاوہ مبلغین اپنے سامعین کو دوسرے مکتب فکر کے مذہبی اجتماعات اور ان کے جنازوں‌میں ‌شریک ہوں کیونکہ یہی نبی آخرالزماں‌ اور ان کے اہل بیت (علیہ السلام ) کی روایت ہے۔ جو بھی ان روایات سے انحراف کرتا ہے یقینا بڑا خطا کار ہے۔

۵- مقررین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو متنبہ کریں کہ ایسے مذہبی معاملات جن کے بارے میں انہیں درست اور مکمل معلومات نہیں ہیں ان پر بات کرنے سے گریز کریں اور نہ ہی ایسے لوگوں کی باتوں پر یقین کریں جو خود کو اسلامی تعلیمات پر کامل عبور رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ ایک مبلغ جس موضوع پر بات کررہا ہو اس کے بارے میں‌ اسے مکمل اور درست علم ہونا چاہئے اس کے علاوہ دنیا میں ‌ہونے والے حالیہ واقعات، خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بھی بات کرنی چاہئے تاہم اگر اسے اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں تو ان پر بات نہ کرے ۔

اگر ایک مقرر یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے واعظ اور نصیحت کو سنیں تو اپنے اعمال اور رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ اسے چاہیے کہ وہ تمام تر مذہبی مسائل اور امور کو بغیر کسی منافقت کے دیانت داری سے بیان کرے اسی طرح وہ اپنے سامعین کو متاثر کر سکتا ہے۔

تمام مبلغین اور مقررین کو چاہئے کہ وہ دنیا بھر میں ‌ہونے والے ماتمی اجتماعات کا بغور جائزہ لیں کہ وہ کس طرح سادگی اور دوستانہ انداز میں‌ منائے جاتے ہیں اوران کا موضوع گفتگو کس قدر سلیس اور جامع ہوتا ہے۔

۶- مبلغین اخلاص اور رضائے الھی کو نگاہ میں رکھیں ، اپنے کاموں اور اعمال کو اہمیت دیں اور نتیجہ تک پہونچائیں تاکہ خداوند متعال انہیں برکت عطا کرے ۔

حضرت ایت اللہ سیستانی نے اس بیانیہ کے آخر میں خداوند متعال سے مبلغین اور اہل بیت اطھار علیھم السلام کے دیگر خادموں کی توفیقات میں اضافہ کی دعا کی اور ان کی کوششوں کو سراہا۔/۹۸۸/ ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬