تحریر: شہاب شہسواری
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ وہ شام کے تیل کے ذخائر کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایک مقبوضہ علاقے سے تیل نکالنا بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرم کا واضح مصداق ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر شام کے تیل کے کنووں پر اپنے قبضے کے اہداف بیان کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ یہ کام اپنے قومی مفادات کیلئے انجام دے رہے ہیں لیکن امریکہ کے چیف آف آرمی اسٹاف مارک میلی سمیت دیگر امریکی فوجی رہنماوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ اقدام شام کے تیل کے کنووں پر داعش کے دوبارہ قبضے کی روک تھام کیلئے انجام پایا ہے۔ امریکہ کے وزیر دفاع مارک اسپر نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا مقصد شام حکومت کو تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ میڈیا پر سامنے آنے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام کے قدرتی ذخائر کے غیر قانونی استعمال پر مبنی ڈونلڈ ٹرمپ کا دعوی حقیقت سے زیادہ قریب ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے شیکاگو میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا: "یہ مت بھولیں کہ ہم تیل اپنے پاس رکھیں گے۔ میں نے ہمیشہ سے یہی کہا تھا کہ تیل اپنے پاس رکھیں۔ ایک مہینے میں 45 ملین ڈالر؟ تیل اپنے پاس رکھیں۔" حال ہی میں شام کے صدر بشار اسد نے امریکی صدر کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں "امریکہ کا بہترین صدر" قرار دیا تھا۔ صدر بشار اسد نے جمعہ کے دن سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: "امریکہ کے گذشتہ صدور مملکت جرائم کا ارتکاب کرتے تھے اور انسانی حقوق اور امریکہ کی اعلی اقدار کے دفاع کا دعوی کرتے ہوئے نوبل انعام بھی لیتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ان سب سے زیادہ صادق کہتے ہیں۔ وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ ہمیں تمہارا تیل چاہئے۔" دوسری طرف روس کا نیوز چینل آر ٹی لکھتا ہے: "ایسی حکومت جو خود کو قانون کی بالادستی کا علمبردار ظاہر کرتی ہے اب انہی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتی دکھائی دیتی ہے جو اس نے خود شام کی تیل کی پیداوار پر عائد کی تھیں۔" روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ہر مہینے شام سے 30 ملین ڈالر کا تیل اسمگل کرتا ہے۔
برٹش کلمبیا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جیمز گراہم اسٹوارٹ کہتے ہیں: "امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں شام کے خام تیل کے ذخائر کے مالک کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا ہے جبکہ یہ انتہائی اہم اور بنیادی امر ہے۔ دوسرا ایشو یہ ہے کہ امریکی حکومت اس تیل سے کیا کرنا چاہتی ہے؟ اگر امریکہ تیل کے ان ذخائر کو ان کے مالک کیلئے محفوظ بنانا چاہتا ہے تو اس کی توجیہہ کی جا سکتی ہے لیکن اگر مالک کی مرضی کے بغیر تیل پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کا یہ اقدام جنگی جرم کا مصداق ہو گا۔" پروفیسر جیمز گراہم اسٹوارٹ نے جنیوا کے چوتھے کنونش سمیت دیگر ایسے بین الاقوامی قوانین کی جانب اشارہ کیا جنہیں امریکہ قبول کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگی حالات میں کسی ملک کے قدرتی ذخائر پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ اور اس کا استعمال جنگ جرم ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کہا: "دوسری عالمی جنگ کے بعد نورن برگ کی عدالتوں میں کنٹی نینٹل آئل کمپنی کے سربراہ والٹر فانک کو جرمنی کے مقبوضہ علاقوں سے تیل نکالنے کے جرم میں جنگی مجرم قرار دیا گیا تھا۔"
روس کی وزارت دفاع نے گذشتہ ہفتے کچھ ایسی دستاویزات شائع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کافی عرصے سے مسلسل شام سے تیل باہر اسمگل کر رہا ہے۔ یہ کام ایک امریکہ کی زیر انتظام کمپنی کے ذریعے انجام پا رہا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کچھ ایسی فضائی تصاویر بھی شائع کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے آئل ٹینکرز شام کے صوبوں دیرالزور اور حسکہ سے تیل شام سے باہر ایک آئل ریفائنری تک منتقل کر رہے ہیں۔ امریکی فوجی بذات خود ان آئل ٹینکرز کو سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ ہر مہینے کم از کم 30 ملین ڈالر شام کا تیل اسمگل کر کے حاصل کرتا ہے۔ امریکی حکومت کا یہ اقدام خود امریکہ کے قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ واشنگٹن نے شام کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ نے شام کا تیل اسمگل کرنے کی غرض سے ایک آئل کمپنی کی بھی بنائی ہے جس کا نام SADCAB ہے اور اس کا انتظام امریکی فوج کے ہاتھ میں ہے۔/۹۸۹/ف