بانی ومدیرصداقت بھی نہ رہے
مادر وطن
تحریر: حجت الاسلام سید مشاہد عالم رضوی( تنزانیہ)
فطرت صاحب کا مادر وطن قصبہ ہلور ضلع سدھارتھ نگر یو پی ہے جو رضوی سادات کی ایک مردم خیز بستی شمار ہوتی ہےجہاں ہرشعبہ میں سرکاری ملازمین آئی ایس افیسرس سائینس و ٹیکنالوجی کے ماہرین ادب نواز ادباء شعراء حکماءخطباء مقررین ومرثیہ خوان اور علماء باعمل کا ہمیشہ سے ایک سلسلہ رہا ہے اور ملک وبیرون ملک علمی ودینی خدمات میں اس قصبہ کی اپنی ایک روایت ہے
ایک چراغ اور بجھا
حجۃالاسلام والمسلمین مولانا حسن عباس فطرت مرحوم اسی مردم خیز سرزمین کے ایک مذہبی ودیندار گھرانہ کےچشم و چراغ تھے جنہوں نے وثیقہ عربی کالج فیض آباد وجامعہ ناظمیہ اور لکھنؤ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے قلم وبیان سےملک وبیرون ملک کے مومنین کونصف صدی سے زیادہ عرصہ تک مستفید کیا ہے
بحثیت قلم کار
آپ ایک صاحب طرز انشاء پرداز ادیب و شاعر اورکہنہ مشق صحافی تھے اخبارات ورسائل اورمختلف مذہبی وادبی شماروں میں مسلسل لکھتے رہے اورانقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد جہاں آپ نے انقلاب اسلامی کی حمایت اور تفسیر وتشریح میں بہت سےمضامین لکھے وہیں آپ نےبڑی جدوجہد کے ساتھ پونہ سے مستقل طور پر مجموعہ صداقت پرچہ بھی شایع کیا جوایک معیاری ھفت نامہ کی حیثیت سے کافی مقبول ہوا اورمتنوع ادبی و ثقافتی مذہبی وسیاسی اور اجتماعی مشمولات کا مجموعہ تھاجس کے قارئین مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی تھے
آپ اردو فارسی عربی سے واقفیت رکھنےکےسبب زبان پر گرفت رکھتے تھے اور طبع بلند کے مالک تھے آپکی تحریر اور افتادطبع کو دیکھ کر شاید کہا جاسکے کہ آپ خطیب و مبلغ سے زیادہ ایک اچھے قلمکارادیب و صحافی تھےچنانچہ آپ نےملک کےمختلف رسایل وجرائد میں نہایت وقیع وگرانقدرمضامین لکھے ہیں اورکتابیں نگارش کیں ہیں جو زبان وبیان کی چاشنی رکھنے کے سبب مقبول عام ہو ئیں
بحثیت مبلغ نصاب تبلیغ پورا کردیا
جہاں مرحوم ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغ دین کے لیے تشریف لے گے وہیں آپ نے افریقہ ودیگر ممالک میں بھی تبلیغ دین کے لیے سفر کیا ہےاور آخر میں شہر پونہ کو اپنا مستقر بنالیا اور جبتکہ صحت نے یاری کی یہیں خدمت دین میں مشغول رہے اور اپنی تمام تر صحافتی مصروفیات کے باوجود پونہ میں مدرسہ جامعہ الرضا بھی چلایا ۔
اس طرح گویا آپ نے نصاب تبلیغ مکمل کردیا
انقلاب اسلامی ایران کی ترجمانی وحمایت
آپ رہبر کبیر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رح سے والہانہ عقیدت رکھتےتھےاورانقلاب اسلامی کے وفادار تھے اورقاید انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی خامنہ ای حفطہ اللہ یا ایران کے خلاف کسی سے کچھ سننا پسند نہیں تھا فارسی ادب پر بھی دسترس حاصل تھی اور صداقت پونہ میں بطور مستمرانقلاب اسلامی ایران کے بارے میں لکھتے رہے
یہ بات اس وقت کی ہے جب لوگ اسلامی انقلاب کی ماہیت وحقیقت سے ناواقف تھے یا اگر واقف بھی تھے توذہن شکوک وشبہات سے مملوء تھا اور خبریں حاصل کرنے کے ذرایع بھی محدود تھےمیڈیا پر سامراجی طاقتوں کے تسلط اوردباؤ کے سبب لوگوں پر حقایق واضح و روشن نہیں ہوپاتے تھے ایسے دور میں نہایت قلیل وسائل وامکانات کے باوجود مولانا حسن عباس فطرت صاحب کی بلند ہمتی تھی جو آپ صداقت پونہ کی فوٹو کاپیاں نکال کر ہندوستان بھر میں انقلاب اسلامی ایران کی ترجمانی کرتے رہے اور مسلمانان ھنداور اھل وطن کو صحیح اور جدید خبروں سے آگاہی دیتے رہے
اخلاقی صفات وکمالات
نہایت صاف گو؛ دل کی بات زبان سے کہدینےوالے حق کے معاملہ میں رورعایت سے دور؛ علم دوست نقاد ہمتی اور شوخ طبیعت واقع ہوۓ تھے جب آپ کی کوئی تعریف کرتا توہنس کے فرماتے
ع
عالم ھمہ افسانہ ماداردوما ھیچ
ایسے زندہ دل وقلندر مزاج کہ
آپ سےایک بار ملاقات کے بعد بار بار ملنے کو جی چاہتا جملے میں شوخی و مزاح ؛جیسے مزاج میں شوخی رچی بسی ہو گویا آپ ایک انسان ظریف تھے
لطیفے اور معاصرین
مولانا تقریب مذاھب اسلامی کانفرنس میں ایران کے مہمان تھے طبیعت بھی اب پہلی جیسی نہیں تھی چلنے پھرنے میں دشواری اور بیٹھ جاتے تو اٹھنے میں زحمت ہوتی بوڑھاپا کے آثار ظاہر ہوچکے تھے
بقول شاعر
دنیا بھی عجب سراے فانی دیکھی
ہرچیز یاں کی آنی جانی دیکھی
جوآکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جوجاکے نہ آۓ وہ جوانی دیکھی
مگر اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارے دیگر معاصرین کے شانہ بشانہ ہرجگہ موجود اور ماتھے پر شکن تک نہیں اسی سفر کا لطیفہ سن لیجئے مرحوم تہران استقلال ہوٹل سے بذریعہ بس کانفرنس حال جارہے تھے اور آہستہ چلنے کے باعث دیگر مندوبین سے پیچھے رہ گئے سب بس میں اور آپ نیچے؛ سوار ہوں تو بس چلے ؛مرحوم نے پاۓ دان پر قدم رکھا اور سیٹ پر بیٹھنا ہی چاہتے تھے کہ گاڑی چل دی گرتے گرتے بچے لوگوں نے تھام لیامگر خودہنسے اورعینک کے اوپر سے جھانک کربےساختہ بولے؛گروں تو آۓ مزہ؛ سننے والےہنس پڑے اور جو ان سے ناواقف تھے انہیں بڑی حیرت یہ کون صاحب ہیں؟
علامہ جوادی سے شوخی
ظاہراً علامہ ذیشان حیدر جوادی رح مرحوم سے جونیئر تھے اس لئے شوخی میں نہیں چوکتے ایک دن مرحوم نے کہا آپ ایک کتاب لکھتے ہیں میں ایک مضمون جو آپکی کتاب پر بھاری ہوتا ہے علامہ نے کیا جواب دیامرحوم نے نہیں بتایا اوربعض معاصرین کے انتقال کے بعد طلبہ میں کسی نے آپ کو بزرگ عالم دین کا خطاب دیا تو یہ شعر سنا یا
ہے بات یہ خوشی کی پر خوش نہیں ہوں میں
ہونے لگا بزرگوں میں میراشماربھی
حریت پسند ی اور حلقہ احباب
حلقہ احباب بھی آپ کا بہت وسیع تھا جہاں علماءو طلبہ سے آپ کی راہ ورسم تھی وہیں ترقی پسند شعراء وادباء سے بھی آپ کی ملاقات اور دوستی تھی اور ان کے ساتھ نشست وبرخواست رکھتے تھے
ازالہ غلط فہمی
ہمعصر عالم دین حجۃالاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین صاحب اترولوی مقیم ناروے کے بقول
حسد اور بغض رکھنے والوں نے آپ کی ہر دل عزیزی ومقبولیت کی وجہ سے آپ پر آزاد خیالی کی تہمت لگائی جبکہ آپ نے دین کےخلاف نہ کبھی کچھ لکھا نہ ہی خود خلاف دین کوئی عمل کیا؛اس بناءپر
مرحوم آزاد خیال نہیں بلکہ حریت پسند وآزادمنش ایک ایسےعالم وفاضل تھے جنکی دوڑ گھراور مسجد تک محدود نہیں تھی بلکہ سماج کے ہراس اھل علم وفنکار سے تھی جو علم و ادب کا متلاشی تھا اور یہ سعادت ہر ایک کو نصیب کہاں؟لہذا یہ ان کا کارنامہ بھی ہے اورانکی شخصیت کی ھمہ جہتی کی دلیل بھی ہے
این سعادت بزور بازو نیست
تانبخشد خدائے بخشندہ
ظ انصاری اور فطرت مرحوم
ایک دن فرمایا کہ ظ انصاری صاحب ؛مشہورترقی پسند ادیب؛ کے گھر میں شادی تھی میں بھی مدعو تھا اور وہاں دیگرترقی پسند وکمونیسٹ نوازشعراء وادباء کے علاوہ مختلف شخصیات بھی مدعو تھیں اورمیں ایک عدد عمامہ تو لوگ کبھی مجھے دیکھیتے کبھی ظ انصاری صاحب کو کہ یہ صاحب یہاں کیسے؟
مرحوم کو اورقریب سے دیکھا
سن دوہزار پانج کے اوائل کی یہ بات ہے جب مولانا ایران میں حقیر کے گھر مہمان ہوۓ تومجھےقریب سے نہ فقط آپ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا بلکہ سفر وحضر میں معیت کا بھی موقع ملا حالانکہ اس سے قبل والد ماجدحکیم سیدشاہد حسین کربلائی کے ساتھ بارہا وطن ہلور میں آپ سے شرف ملاقات حاصل ہوچکاتھا والد ماجد مولانا کے مداحوں میں سے تھے اوربذات خود شاعر وادیب ہونے کے علاوہ پیشے سےحکیم ونباض تھے اور مولاناکے معالج بھی رہ چکے تھے
مطب پر اکثر وبیشترمولا نا کے والد جناب اطہر بابا رح آکے بیٹھتے تھے جو تقوا وطہارت میں مشہور ہونے کے علاوہ ذاکر اہلبیت بھی تھے میں نے بھی انھیں دیکھا ہے اور انکی مرثیہ کی مجلس سنی ہے مرحوم مصائب میں اس قدر گریہ کرتے کہ الفاظ صداے گریہ میں محو ہوجائیں وہ ایک محتاط نہایت شفیق و مہربان بزرگ تھے مسجد جامع ہلور میں آذان سے قبل ہی آجاتے تھے اور نوافل پڑھنےمیں مصروف رہتے اور بچوں سے مذہی سوال کے جواب پر خوش ہوکر انعام دیتے انھیں عموماً بچے سلام میں سبقت حاصل کرنے کے لئے ڈھونڈتے مگر وہی کامیاب ہوتے تو فطرت صاحب ایسےدیندار وباوقارباپ کے بیٹے تھے
چنانچہ ھلور
سے نکلنے کے بعد جب میں تعلیمی سلسلہ سے لکھنؤ آیا تومولانا سے غفران مآب کی مجالسِ عظیم میں پہلی ملاقات ہوئی اور یہیں پہلی بار آپکی مجلس بھی سننے کا اتفاق ہوایہ ملاقات بہت مختصر تھی مگرکچھ مدت کےبعد قم مقدسہ میں آپ سے ملاقات ہوئی توپھر یہ سلسلہ جاری رہا اور بہت قریب سے آپ کو دیکھنے کا موقع ملا
آپ زندہ دل
منکسر مزاج اشاروں اشاروں میں اصلاح کرنے والے کشادہ قلب و فراخ طبیعت کے مالک تھے تنگ خیالی اور تنگ نظری سے دور وقت کی قدر شناسی اورپابندی بھی دیکھی ایران کے قدیمی رفقاء اثر ورسوخ رکھنے والوں سےیاد اللہ بھی تھی مگر آپنے اپنے رکھ رکھاو اور عزت نفس پر کبھی حرف نہیں آنے دیا علم دوستی میں پیش پیش تھے اردو عربی فارسی اور انگریزی زبانوں کےواقف کار تھے
طلاب کو نصیحت
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ا نگریزی زبان کی جانکاری کو لازم سمجھتے تھے اور کہتے تھےمیں نے ناظمیہ میں رہکر انگریزی سیکھا تھا جب اساتذہ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اسی طرح وقت کی پابندی کو طلبہ کے لیے اہم جانتے تھے اور خود بھی سرہانے اپنا ٹایم ٹیبل بناکر رکھتے اور بیکار گھومنے پھرنے والوں سے برہم ہوتے عالموں کے درمیان نہایت عاجزی وانکساری سے بیٹھتے
بتاتےتھےاسی ممبئی میں ایک وقت میں نے ایسا بھی گزارا ہے جب رات کو فٹ پاتھ پر لیٹنے پر مجبور تھا
اور آپ نےاپنی صنف کے برخلاف اپنے کو کبھی محدود نہیں رکھاچنانچہ زبان وبیان اور قلم جس طرح سے بھی ممکن ہوا خدمت دین ومذہب میں مشغول رہےاور قوم وملت کو فائدہ پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا
مسجد امام خمینی میں
دلچسپ ہے پہلی بار مدرسہ امام خمینی قم تشریف لائے اور مدرسہ کی خوبصورت عمارت دیکھتے ہوئے جیسے ہی داخل مسجد ہوۓ مسکرا کر بولے اب تو نماز بھی پڑھنا پڑے گی پھرایک گوشہ میں تحییت مسجد پڑھی اور نماز کے بعد پھرمسجد کانظارہ کیا
خواجہ پیری صاحب کا اظہار خیال
آیت اللہ مرعشی نجفی لائیبریری کی جانب سے قم مقدسہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں فطرت صاحب کو مقالہ پڑھنا تھااور؛آپ کے ہمراہ آقائے خواجہ پیری بھی موجود تھے
چنانچہ ایک دن
درمیان گفتگوجناب خواجہ پیری نےفطرت صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا
حاج آقا ازان سابقہ دارھااست ۔۔۔وایشان درھندبہ انقلاب خیلی کمک کردہ۔۔۔تقریبااس قسم کی تعبیر
یعنی آقای حسن عباس فطرت انقلاب اسلامی ایران کے پرانے وفاداروں میں سے ہیں جنہوں نے ہندوستان میں انقلاب اسلامی کو متعارف کرانے میںبڑی عرق ریزی کی ہے۔
ع
حق مغفرت کرے بڑا آزاد مرد تھا
یاد رہے خود خواجہ پیری صاحب مدت مدید سے ایرانی کلچر ہاؤس دہلی میں احیاءکتب تشیع کے حوالہ سے کام کرتے رہے ہیں چنانچہ وہ اب ایرانی کم ہندوستانی زیادہ ہیں اور دل چسپ بات یہ کہ
مذکورہ بالاکانفرنس میں مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی تھی کہ مولانا مرحوم کی فرمائش پر آپ کے اردو مقالہ کو میں نے فارسی میں ترجمہ کیا تھا جو کانفرنس میں پڑھا گیا ولللہ الحمد
سفرایران اسلامی
اکثر کسی نہ کسی مناسبت سے آپ ایران آتےرہتےتھےاورانقلاب اسلامی ایران کے حامی ووفادارہونےکے باوجود ہرایک سے ملتے جلتےاور ہر عالم وواعظ سےبےتکلف تھے البتہ کسی سے وابستگی اختیار کی نہ کسی کے ہاتھ پر بیعت کی اپنے کام سے کام رکھااور حمایت حق میں سرگرم عمل رہے چنانچہ آپ اپنی انھیں صفتوں کے سبب ہر دل عزیزتھے
روشن خیال کشادہ نظر تعمیری فکر کے حامل ایک ایسےعالم ودانشور جواپنےزمانےکے حالات ومسائل سے خبردار تھے اور اتحاد بین المسلمین کے طرفدار وحامی تھےلھذاہرمسلک ومذہب کے علماء کااحترام کرنےکے ساتھ اپنے چھوٹوں کی ہمت افزائی میں کوئی کسر نہیں رکھتے
امام حسن مجتبی نمبر
مولانا قم اۓ ہوئے تھے اس لئے میں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر مجلہ؛ میزان؛ ماہ رمضان کی خصوصی اشاعت ۔ جو امام حسن علیہ السّلام کی ذات گرامی سے مخصوص تھا ۔ کے لئے مولانا سے مضمون لکھنے کی درخواست کی تو آپ نےخندہ پیشانی سے اسےقبول فرمایا اورپھر گھنٹہ بھر میں ؛شجاعت حسنی؛ کے عنوان سے مضمون رقم کرکے حقیر کی حوصلہ افزائی فرمائی جو مجلہ ؛میزان ؛خصوصی اشاعت قم کی زینت بنا
آہ مولانا حسن عباس فطرت
جناب ڈاکٹر وضاحت حسین صاحب،؛ سابق ایڈیٹر نیا دور ؛ کے میسج کے ذریعہ جب مولانا کی خبر وفات معلوم ہوئی تو صدمہ کے ساتھ ساتھ مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ ادھر تنزانیہ چلے جانے کی وجہ سے عرصہ سے میریآپ سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی فون سے ہی احوال پرسی ہوئی آپ بیمار رہنے لگے تھے موت کی خبر سنتے ہی ماضی کی تمام یادیں تازہ ہوگئیںاور آپکا مسکراتا ہوا چہرہ نظروں میں پھرنے لگا
مولانا کی وفات ایک بڑا نقصان ہےجس کی بھر پائی آسان نہیں ہےحقیقت یہ ہے کہ
مرحوم نے پونہ میں اپنی زندگی کابیشتر حصہ گزاراتھا سو انھوں نے وہیں پیک اجل کو بھی لبیک کہا
انا للہ وانا الیہ راجعون
وہ محض ایک عالم وادیب و مؤرخ ہی نہیں بلکہ انقلاب اسلامی ایران کےترجمان علم دوست بیبا ک قلمکار اور تجربہ کار صحافی بھی تھے جو دنیا سےرخصت ہوگۓ
ع ۔ جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں
چنانچہ مسند علم کے ساتھ بزم ادب و محفل صحافت بھی سوگوار ہے۔
میں انکی وفات حسرت آیات پرمؤمنین قصبہ ہلور پسماندگان احباب اور ان کےقدرشناسوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں
خصوصاً حضرت حجت عج کی خدمت میں عرض تسلیت و تعزیت کے ساتھ دعا گو ہوں کہ
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جوار اھل بیت علیھم السلام میں جگہ عنایت کرے
آمین ثم آمین
/۹۸۸/ن