رسا نیوز ایجنسی: تاریخ اسلام میں نقل ہے کہ حضرت محمد مصطفی (ص) کے جانشین حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جوشخص کسی برادرمومن کادل خوش کرتاہے خداوندعالم اس کے لیے ایک فرشتہ پیداکرتاہے جواس کی طرف سے عبادت کرتاہے اورقبرمیں مونس تنہائی ،قیامت میں ثابت قدمی کاباعث، منزل شفاعت میں شفیع اورجنت میں پہنچانے میں رہبرہوگا۔
حضرت امام جعفر صاد ق (ع) پیغمبر اسلام (ص) کے چھٹے جانشین اور سلسلہ عصمت کی آٹھویں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد امام محمدباقر (ع) اور مادرگرامی جناب ''ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر'' تھیں ۔ آپ منصوص من اللہ معصوم تھے۔
آپ کا اسم گرامی جعفر (ع) ۔ آپ کی کنیت عبد اللہ ،ابو اسماعیل ، اور آپ کے القاب صادق، صابر ،فاضل ، طاہر وغیرہ ہیں ۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جناب رسول خدا (ص)نےاپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفر بن محمد علیہ السلام کو صادق کے لقب سے ملقب فرمایا تھا ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض ارشادات
علامہ شبلنجی تحریرفرماتے ہیں :
۱ ۔ سعید وہ ہے جوتنہائی میں اپنے کولوگوں سے بے نیازاورخداکی طرف جھکاہواپائے ۔
۲ ۔ جوشخص کسی برادرمومن کادل خوش کرتاہے خداوندعالم اس کے لیے ایک فرشتہ پیداکرتاہے جواس کی طرف سے عبادت کرتاہے اورقبرمیں مونس تنہائی ،قیامت میں ثابت قدمی کاباعث، منزل شفاعت میں شفیع اورجنت میں پہنچانے میں رہبرہوگا۔
۳ ۔ نیکی کاتکملہ یعنی کمال یہ ہے کہ اس میں جلدی کرو،اوراسے کم سمجھو،اورچھپاکے کرو۔
۴ ۔ عمل خیرنیک نیتی سے کرنے کوسعادت کہتے ہیں۔
۵ ۔ توبہ میں تاخیرنفس کادھوکہ ہے۔
۶ ۔ چارچیزیں ایسی ہیں جن کی قلت کوکثرت سمجھناچاہئے ۱ ۔آگ، ۲ ۔ دشمنی ، ۳ ۔ فقر، ۴ ۔مرض
۷ ۔ کسی کے ساتھ بیس دن رہناعزیزداری کے مترادف ہے ۔
اخلاق و اوصاف
آپ کے اخلاق و اوصاف زندگی کے ہر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے ہیں ۔ مثلا مہمان نوازی ، خیرو خیرات، مخفی طریقہ پر غربا کی خبر گیری ، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک ، عفو جرائم ، صبر و تحمل وغیرہ ہیں۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرتے تھے ، مزدوروں کی بڑی قدر کرتے تھے ، خود تجارت کرتے تھے اور اکثر اپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ بیلچہ لۓ باغ میں کا م کر رہے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ہو گیا تھا کسی نے کہا کہ یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے میں یہ خدمت انجام دوں ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا طلب معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف برداشت کرنا عیب نہیں ہے ۔
اشاعت علوم
تمام عالم اسلام میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا ، دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لۓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہونچ گئی۔ ان میں فقہ کے علماء بھی تھے ، تفسیر کے متکلمین و ناظرین بھی تھے ، آپ کے دربار میں مخالفین مذھب آ آ کر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے ان سے مناظرے ہوتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد بھی فرماتے تھے اور اصحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بھی بتاتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں کبھی آپ خود بھی مخالفین مذھب اور بالخصوص دہریوں سے مناظرے فرماتے تھے ۔ علاوہ علوم فقہ و کلام وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ چنانچہ آپ کے اصحاب میں جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشہور امام فن تھے ، جنھوں نے چار سو رسالے امام جعفر صادق علیہ السلام کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کۓ ۔ آپ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے ، جنھوں نے کتابیں تصنیف کیں ۔ جن کی تعداد سینکڑوں تک پہونچتی ہے۔
شہادت
حضرت امام صادق (ع) عبدالملک بن مروان [ پانچواں اموی خلیفہ ] کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسکے بعد باقی 8 بنی امیہ خلفاء اور دو عباسی خلفاء کہ کے ہمعصر تھے جن کا نام ذیل میں ہیں اورحضرت نے ان میں سے اکثر کی طرف سے مصائب اور مظالم برداشت کئے :
1 ۔ ولید بن عبدالملک
2 ۔ سلیمان بن عبدالملک
3 ۔ عمر بن عبدالملک
4 ۔ یزید بن عبدالملک
5 ۔ ھشام بن عبدالملک
6 ۔ ولید بن یزید
7 ۔ یزید بن ولید
8 ۔ مروان بن محمد
9 ۔ ابوالعباس سفاح
10 ۔ منصور دوانقی
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بیان ہے:
ایک بار منصور نے میرے والد کو طلب کیا تا کہ وہ انھیں قتل کرے ۔ اس کے لئے اس نے شمشیر اور بساط بھی آمادہ کر رکھی تھی۔ ربیع (جو منصور کے درباریوں میں سے تھا) کو اس بات کا حکم دیا کہ جب ''جعفر بن محمد'' علیہ السلام میرے پاس آئیں اور میں ان سے گفتگو کرنے لگوں تو جس وقت میں ہاتھ کو ہاتھ پر ماروں اس وقت تم ان کی گردن اڑا دینا۔
امام علیہ السلام وارد ہوئے منصور کی نظر جیسے ہی امام پر پڑی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور امام کو خوش آمدید کہا ۔ اور اس بات کا اظہار کیا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ آپ کے قرضوں کو چکادوں۔ اس کے بعد خوش روئی سے امام کے اعزاء و اقارب کے حالات دریافت کئے اور ربیع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا تین روز بعد امام کو ان کے اعزا و اقارب کے پاس پہنچا دینا۔
آخر منصور امام کو برداشت نہ کرسکا جن کی امامت کا آوازہ اور رہبری شہرہ ملتِ اسلامیہ کے گوشہ گوشہ تک پہنچ چکی تھا۔ شوال ۱۴۸ھ میں امام کو زہر دیا ۔امام علیہ السلام نے ۲۵/شوال کو ۶۵ برس کی عمر میں شہادت پائی .آپ کے جسم اطہر کو جنت البقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گی۔