08 June 2020 - 14:41
News ID: 442905
فونت
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ نے حضرت حمزہ کا قصیدہ پڑھا، محبوب خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ کی مدح سرای فرمای اور جنکو اللہ نے جملہ فضائل عطا فرمائے یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام نے آپ کی فضائل بیان کئے۔

تحریر: حجت الاسلام سید علی ہاشم عابدی لکھنو ھند

اللہ تبارک و تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے شیر، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے محب، مدافع دین، پاسبان مذھب، مومن کامل، شجاع و مخلص سیدالشھداء حضرت حمزہ علیہ السلام جنکی شجاعت، جواں مردی، ھیبت، رعب و دبدبہ تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے۔

آپ نسل ابراہیم خلیل، خاندان قریش، قبیلہ بنی ھاشم کی ایک عظیم الشان شخصیت، شیبہ الحمد قمر بطحاء رئیس مکہ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے لخت جگر، مومن قریش محسن اسلام حضرت ابوطالب اور حضرت عبداللہ علیھماالسلام کے چھوٹے بھای اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہمدرد، شفیق اور مہربان چچا اور رضائی بھای تھے۔

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ نے آپ کا قصیدہ پڑھا، محبوب خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ کی مدح سرای فرمای اور جنکو اللہ نے جملہ فضائل عطا فرمائے یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام نے آپ کی فضائل بیان کئے۔

قرآن کریم کی نظر میں

۱:  هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ فَالَّذِینَ کَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِنْ نَار یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمْ الْحَمِیمُ. یہ مومن و کافر دو باہمی دشمن ہیں جنہوں نے پروردگار کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا ہے پھر جو لوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے اور ان کے سروں پر گرما گرم پانی انڈیلا جائے گا۔ ۱

صحیح بخاری (ج۴، تفسیر سوره حج)، صحیح مسلم، سنن ترمذی، ابن ماجه اور اهل سنت و شیعه  کی دیگر کتب میں منقول ہے کہ حضرت ابوذر نے فرمایا: یہ آیت ان دو گروہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک اسلام کا شدید مدافع اور پاسبان تھا اور دوسرا اسلام کا سخت ترین دشمن، حامی گروہ میں حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام، حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ تھے جب کہ دشمن گروہ میں عتبہ، شیبہ اور ولید تھے اور یہ دونوں گروہ جنگ بدر میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں تھے۔

۲: مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلا۔ مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے. ۲

 

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیت میں "قضی نحبہ" سے مراد حضرت حمزہ و حضرت جعفر ہیں اور "منھم من ینتظر" سے مراد امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہیں۔ ۳

نیز امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے مسجد کوفہ کے منبر سے فرمایا: اس آیت سے مراد میرے چچا حمزہ اور ابن عم عبیدہ ہیں جو شہید ہو گئے اور "منھم من ینتظر" سے مراد میں ہوں۔ ۴

۳: مَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَاءَ اللهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللهِ لاَت وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ - وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ.

جو بھی اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے معلوم رہے کہ وہ مدّت یقینا آنے والی ہے اور وہ خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہےاور جس نے بھی جہاد کیا ہے اس نے اپنے لئے جہاد کیا ہے اور اللہ تو سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔ ۵

 

جناب ابن عباس نے فرمایا کہ یہ آیت ہم بنی ہاشم کے سلسلہ میں نازل ہوئی جنمیں حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ ہیں۔ ۶

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں جناب حمزہ علیہ السلام

 

۱: حضرت سلمان محمدی بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا آخری وقت تھا، آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا تشریف لائیں تو آپ اپنے والد کو اس عالم میں دیکھ کر اپنے اشک نہ روک سکیں تو حضور نے آپ کی دلجوی کرتے ہوئے فرمایا: میری بیٹی! اللہ نے ہم کو چھ ایسی خصوصیات عطا کی ہیں جو ماضی میں کسی کو نہیں ملی اور نہ مستقبل میں کسی کو ملے گی جنمیں سے ایک سید الانبیاء و المرسلین جو تمہارے والد ہیں، دوسرے سید الاوصیاء جو تمہارے شوہر ہیں اور تیسرے سیدالشھداء جو تمہارے والد کے چچا حمزہ ہیں۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے پوچھا: بابا! کیا وہ صرف انکے سردار ہیں جو انکے ساتھ شہید ہوے؟ تو حضور نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ (حمزہ) انبیاء اور اوصیاء کے علاوہ اولین و آخرین کے ہر شہید کے سردار ہیں۔ ۷

اس حدیث کی روشنی حضرت حمزہ اور امام حسین علیہ السلام دونوں سیدالشھداء ہیں بس فرق اتنا ہے کہ جناب حمزہ انبیاء اور اوصیاء کے علاوہ تمام شہدا کے سردار ہیں اور امام حسین علیہ السلام انبیاء اور اوصیاء سمیت تمام شہدا کے سردار ہیں۔

۲: ہم اولاد عبدالمطلب جنتیوں کے سردار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، حمزہ سیدالشھداء، جعفر طیار، علی بن ابی طالب، فاطمہ زہرا، حسن، حسین اور مھدی علیھم السلام۔ ۸

۳: میرے محبوب ترین بھای علی بن ابی طالب ہیں اور محبوب ترین چچا حمزہ ہیں۔ ۹

 

جناب حمزه اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں

۱: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے شوری میں اپنی حقانیت میں جناب حمزہ کا ذکر کیا، یہودی سے گفتگو میں تذکرہ فرمایا اور حاکم شام کے خط کے جواب جو خط لکھا اس میں جناب حمزہ کے نام پر بھی افتخار فرمایا۔

۲: حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں جو خطبہ دیا اس میں اپنی فضیلت اور حقانیت میں حضرت حمزہ کا بھی ذکر کیا۔ ۱۰

۳: حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: جنت میں کسی تعصب کرنے والے کی گنجائش نہیں سواے حمزہ بن عبدالمطلب کے کہ جب مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی توہین کی تو جناب حمزہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی پاسبانی کی خاطر اسلام قبول کیا۔ ۱۱

۴: رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد اہلبیت علیھم السلام کو جن مصائب سے گذرنا پڑا، اس سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر حمزہ و جعفر ہوتے تو ہمارا حق غصب نہ ہوتا اور ہمارے دشمن اگر ان دونوں کو دیکھتے تو ہمارا حق غصب کرنے کی ہمت نہ کرتے (مفہوم روایت) ۱۲

حضرت حمزہ علیہ السلام ۱۵ شوال ۳ ہجری جنگ احد میں شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد آپ کے جسم کو مثلہ کر کے آپ کے کلیجہ چبانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ جیسا کہ اسلامی کتب تاریخ میں مرقوم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ پر ستر بار تکبیر کہی اور آپ کو میدان احد میں دفن فرمایا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جمعہ کو آپ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتی اور آپ کی  قبر کی خاک سے تسبیح بنای۔ پہلے یہاں بھی گنبد و بارگاہ تھے، زائرین کا ہجوم ہوتا لیکن افسوس ۸ شوال ۱۳۴۴ ھجری کو جب جنت البقیع ویران ہوا تو آپ کے روضہ کو بھی ویران کر دیا گیا۔ جنت البقیع، جنت المعلی اور شہداے احد کے روضوں کی ویرانی عالم اسلام کی غیرت پر سوالیہ نشان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالجات:

۱: حجّ: آیت ۱۹

۲: سورہ احزاب آیت ۲۳

۳: تفسیر قمی، ج۲، ص۱۸

۴: سوره عنکبوت آیت ۵ و ۶

۵: صوائق محرقه، ص۸۰

۶: تفسیر فرات کوفی

۷: اکمال الدین، ج۱، ص۲۶۴-۲۶۳

۸: امالی صدوق، مجلس ۷۲

۹: امالی صدوق، مجلس ۷۲

۱۰: ارشاد مفید، ص 234؛ مقتل خوارزمی

۱۱: کافی، ج 2، ص

۱۲: الکافی، ج۸، ص ۱۸۹، حدیث ۲۱۶.) 308)، ج 1، ص 253

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬