تحریر : مرکزی سینئر نائب صدر جے ایس او پاکستان عبداللہ رضا
کچھ دن پہلے جب شہداء مستونگ کی میتیں رکھ کر احتجاج جاری تھا اور طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو لگتا تھا کہ اس دفعہ فوجی آپریشن ہو کر رہے گا۔ ادھر اسلام آباد میں شیعہ علماء کونسل کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی ایوانوں میں حرکت شروع ہوئی اور فوری طور وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو کوئٹہ بھیجا گیا تا کہ وہ مظاہرین سے مذاکرات کر کے اس احتجاج کو ختم کروائیں۔
وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات بغل میں چھری دبائے منہ میں رام رام کرتے کوئٹہ پہنچے اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ مذاکرات شروع ہو گئے۔ کہتے ہیں سیاست انسان کو کسی کا بھی مخلص نہیں رہنے دیتی۔ اپنے رشتے دار بھی سیاست میں رشتے دار نہیں رہتے ۔ خون سفید ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاست میں اپنے وطن سے رشتہ بھی نہیں رہتا اور اغیار کی غلامی کو وطن کی آزادی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بظاہر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا ایجنڈا لے کر جانے والے ہمارے وزیر داخلہ صاحب نے لواحقین کو مطمئن کر ہی لیا اور لواحقین نے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات و نشریات کی باتوں میں آ کر دھرنہ ختم کر دیا ۔
لیکن میں سلام پیش کروں گا حکومت کی اس کارکردگی کو حکومتی اراکین زیادہ عرصے تک جھوٹ نہیں بول سکتی۔ لہٰذا ابھی لواحقین ، اپنے اپنے شہداء کو دفنا کر فارغ ہی ہوئے تھے اور شہداء کے کفن کی مٹی ابھی میلی بھی نہ ہوئی تھی کہ پہلے سے تیار شدہ پروگرام کے تحت طالبان کی طرف سے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کا ڈرامہ رچایا گیا تا کہ یہ آپریشن شروع کرنے کے وعدے سے مکرنے میں آسانی ہو سکے۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی آفر کا آنا ہی تھا کہ وہی وزیر اطلاعات و نشریات صاحب جو تین دن پہلے شہداء کے لواحقین کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں آپریشن کی یقین دہانی کروا کر آئے وہ یہ کہنے لگے کہ مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ لیں گے ۔
بحیثیت مسلمان میں جب اسلامی آئین اٹھا کر دیکھتا ہوں اور رسول گرامی قدر حضرت محمد (ص) کے لائے ہوئے اسلامی دستور کی دفعات کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ بات واضح ملتی ہے کہ غدار کی سزا موت ہے چاہے وہ توبہ ہی کیوں نہ کر لے ۔ طالبان کہ جنہوں نے اسلام سے بغاوت کی۔ اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اسلامی اقدار کو فراموش کر دیا اور اسلام سے ہٹ کر ایک نیا اسلام لانے کی کوشش کی ۔ آج جب وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو ہم فوری طور پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم کون سے مسلمان ہیں ۔
وزیر اطلاعات صاحب ان شہیدوں کے خون کا کیا بنے گا کہ جن کے جنازوں پر کھڑے ہو کر آپ ان سے آپریشن کاوعدہ کر آئے ہیں۔ مذاکرات ہی کرنے ہیں تو اگر کل طالبان آپ کے گھر پر قبضہ کر لیں اور آپ کو ہی نقصان پہنچانا شروع کر دیں اور پھر مذاکرات کا کہیں تو کیا آپ مذاکرات کرنے کے لئے آمادہ ہوں گے ؟؟؟
میں چونکہ ایک آزاد ریاست میں رہتا ہوں اور اس ریاست کا اپنا آئین ہے۔ میں جب پاکستانی آئین اور پاکستانی دستور اٹھا کر دیکھتا ہوں تو مجھے اس دستور میں بھی یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ غدار وطن کی سزا موت ہے۔ طالبان جنہوں نے ملک کے دستور، ملک کے آئین کے ساتھ غداری کی ان کی سزائے موت کو ختم کر کے کیوں ان سے مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں ؟
مذاکرات کی باتیں اس طرح سنجیدہ طور پر کرنا اور طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہونا تو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت کی حکومت طالبان کے ہاتھوں میں کھلونا ہے اور طالبان جب چاہتے ہیں حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ نواز حکومت طالبان کے خلاف آپریشن کرے گی۔ کوئٹہ میں ایک بس پر حملہ ہونا، نواز شریف صاحب کا چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کر کے فوج کو تیاری کا حکم دینا، وزیر داخلہ ، وزیر اطلاعات کا کوئٹہ جا کر لواحقین سے آپریشن کا وعدہ کرنا اور پھر تین چار دنوں کے بعد اچانک طالبان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کا آنا۔ یہ سب ایک ڈرامہ کا اسکرپٹ ہے جو کچھ نادیدہ قوتیں لکھ رہی ہیں اور پاکستانی حکومت اس ڈرامہ کو چلا رہی ہے۔
اس ڈرامہ کو رچانے کا ایک واحد مقصد یہی ہے کہ حکومت میں بیٹھے طالبان نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تو آپریشن کے لئے بالکل تیار تھے لیکن طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی اس وجہ سے آپریشن کو ملتوی کر دیا گیا۔ مقصد جو بھی ہو یہ بات تو واضح ہے کہ اس سارے ڈرامے میں جہاں پاکستانی عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے وہیں عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ انتہائی برے طریقے سے مسخ ہو رہی ہے۔