ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ایران کی سرزمین جنوب مغربی ایشیائی قدیم تہذیبوں کے ساتھ ساتھ قدیم مذاہب کی بھی آماجگاہ رہی ہی، اس خطہ ارضی کو ’’فارس ‘‘ بھی کہتے تھے اور یہاں بولی جانے والی زبان اب بھی فارسی کہلاتی ہے۔ ’’فارس‘‘ کی وجہ تسمیہ 1000سال قبل مسیح ، اس علاقے میں ہجرت کر کے آنے والے قبائل ہیں جو ’’پارسا‘‘ کے نام سے تاریخ میں محفوظ ہیں ان کا یہ نام بعد میں جزوی تبدیلی کے ساتھ اس علاقے کی پہچان بن گیا۔
گزشتہ صدی کے آغاز تک اس سرزمین کو ’’فارس‘‘ ہی کہتے تھے تا آنکہ 1935ء میں ایرانی حکومت نے پوری دنیا سے اپیل کی اب سے انہیں ایران کے نام لکھا اورپکارا جائے۔ ایران کی تاریخ شخصی و خاندانی طرز حکمرانی سے بھری پڑی ہے۔ وسطی و جنوبی ایشیا اور عرب اقوام کے درمیان واقع ہونے کے باوجود اس خطے نے ان دونوں علاقوں سے بہت کم اثر لیا اور ہمیشہ اپنی مقامی تہذیب کی پرورش ہی اس خطے کا طرہ امتیاز رہی ہے۔
ایران جنوب مغربی ایشیا کی اسلامی ریاست ہے جس کا بہت بڑا حصہ سطح مرتفع پر مشتمل ہے اور چاروں طرف بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہیں جن کے دروں سے گزر کر اس سرزمین میں داخل ہونا پڑتا ہے ۔ آبادی کی اکثریت اسی طرح کے بے آب و گیاہ علاقے میں رہتی ہے ۔ اس کا دارالحکومت ’’تہران‘‘ ہے، اصفہان اور شیرازسمیت اس مملکت کے متعدد شہر بہت بڑی تاریخی اہمیت اور عظیم ثقافتی و ادبی ورثے کے حامل ہیں۔ ان شہروں کی سرزمین اور اس پر بنی عمارتوں میں صدیوں کی تاریخی یادداشتیں دفن ہیں اور یہ علاقے تاریخ کے کتنے ہی عروج و زوال کی داستانیں لئے نہ صرف یہ کہ خاموش کھڑے ہیں بلکہ اس سے زیادہ تاریخی اسرار و رموز کو محفوظ کرنے کے منتظر ہیں ۔
ایران کی قدیم تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ، قبل از تاریخ کا دور کم و بیش ایک لاکھ سال قبل مسیح کا ہے جب یہاں پر انسانی قدموں کی چاپ پہلی دفعہ سنائی دینے لگی، اخامنشی دور کا سورج طلوع ہونے پر دوسرے دور کا اختتام ہوتا ہے اور خود اخامنشی دور ایرانی قدیمی تاریخ کا آخری دور ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح سے شروع ہو کر چوتھی صدی قبل مسیح تک جاری رہتاہے۔
ایرانی قدیم تاریخ کا یہ آخری دور علم و آگہی کا دور کہلاتا ہے جب ایران میں تعلیم و تعلم کا آغاز ہوا اور ایران کی تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس دور میں ایرانی حکرانوں کی قلمرو میں بھی اضافہ ہوا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک ایران کی حدود پہنچنے لگیں ۔ ایرانی قدیم ادوار کی تاریخ کا ماخذ زیادہ تر قدیم تاریخی عمارات ہی ہیں لیکن اخامنشی دور کی تاریخ کے مکمل تحریری شہادتیں میسر ہیں ۔
کم و بیش 600 قبل مسیح میں ’’زرتشت‘‘ نامی معلم اخلاق نے شمال مشرقی ایران میں اپنی تعلیمات کے پرچار کا آغاز کیا، یہ اخامنشی دور اقتدارتھا۔ اس نے سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تعلیم دی۔ ’’اہورمزدا‘‘ نامی خدا کی پوجا اسکی تعلیمات میں شامل ہے لیکن بنیادی طور پر اسکا مذہب اخلاقیات کا ہی مرقع ہے ۔اس سے پہلے بھی ایرانیوں کے ہاں ایک مذہب کے خدوخال پائے جاتے تھے ’’زرتشت‘‘ نے پرانے مذہبی عقائد و معاشرتی رسومات کی اصلاح کا کام بھی کیا۔ اس نے جانوروں کی قربانی سے منع کیا اور اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ’’آگ‘‘ کی اہمیت اجاگر کی۔
’’زرتشت‘‘ نے ’’آگ ‘‘ کی پوجا تونہیں کی لیکن اسکے ہاں ’’آگ‘‘ سب سے بڑا اور اعلی درجے کا سچائی کا مظہر ہے ۔ اخامنشی حکمرانوں نے زرتشت کے مذہب کو جزوی طور پر قبول کیا اور اسکے کیلنڈر کو مملکت میں رائج کیا۔ ’’زرتشت‘‘ کے ماننے والے آج تک دنیا میں باقی ہیں اور آگ کی پوجا یعنی آتش پرستی کے حوالے سے دنیا کے مذاہب میں پہچانے جاتے ہیں۔
330 قبل مسیح میں اسکندر اعظم نے اخامنشیوں کو شکست دے کر ایران کی فتح مکمل کی اور اس طرح مغربی ایشیا میں یونانی تہذیب نے اپنے پنجے گاڑنے کا آغاز کیا۔
سکندراعظم کی فوج کے بہت سے یونانی سپاہی ایران میں مستقل طور پر آباد ہوئے اور ان یونانی باشندوں نے یہاں شادیاں کر کے اپنی نسل پروان چڑھائی اور اپنے ساتھ لائی ہوئی تہذیب کی پرورش کی۔
اسکندر نے یہاں اپنا سیاسی نظام رائج کیا اور اخامنشی دور کی باقیات میں سے بھی کچھ کو باقی رکھا۔ تسخیرایران کے بعد بہت جلد سکندر اعظم اس دارفانی سے کوچ کرگیا اور ایران میں چوتھی صدی قبل مسیح کے ختم ہوتے ہوتے یونانیوں کا سورج بھی غروب ہو چکاتھا اور ساسانیوں نے یونانی مقبوضات پر اپنا تسلط جما لیاتھا ۔
ایران میں مسلمانوں کی آمد تک ساسانی نام کے حکمران اقتدار میں رہے۔ انہوں نے ایران میں ایک شاندار تہذیب کی بنیاد رکھی اور اسکی اقدارکو پروان چڑھایا۔ ’’زرتشت‘‘ مذہب کی جدید شکل بھی انہیں کے دور میں تیارکی گئی اور تاریخی اہمیت کے آتش دان تعمیر کیے گئے تاکہ آگ کی پوجا وسیع پیمانے پر کی اور کرائی جا سکے۔
سلطنت روما کے ساتھ ساسانیوں کی جنگیں تاریخ کے طالب علم کے لیے بہت دلچسپی کا سامان رکھتی ہیں۔ انہیں کے دور میں مذہب عیسائیت بھی ایران میں پہنچا ، اگرچہ کچھ لوگ اس مذہب سے متاثرہوئے لیکن عیسائیت آج تک ایران میں کوئی اہم مقام حاصل نہ کر سکی اس کے برعکس ایران کے پڑوسی ممالک میںاس مذہب کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے ۔
اس دور کا ایک اور قابل ذکرامر’’مانی‘‘ نامی (16-274ء) فلسفی کی آمد ہے، یہ پارتھیوں کی اولاد میں سے تھا اوربیبیلونیا کا رہنے والا تھا۔ اسکی تعلیمات زیادہ تر روحانی نظریات اور بہت گہرے فلسفوں پر مبنی تھیں۔ مانی نے اپنے لیے دعوی کیا کہ وہ حضرت موسی اورحضرت عیسی علیھما السلام کی تعلیمات کی تکمیل کے لیے آیا ہے۔ اس نے ’’زرتشت‘‘ اور بائبل کی تعلیمات کو یکجا کر کے تو ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش بھی کی۔ ہندوستان سے واپسی پر اس نے پہلے ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا لیکن بہت جلداسے اپنے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد میسر آگئی یہاں تک کہ بادشاہ ’’شاپور‘‘ نے بھی اسے مان لیا اور اسے ایک نبی کا مقام میسر آگیا۔ اس نے بادشاہ کو اپنی تعلیمات پر مبنی ایک کتاب ’’شہبرگان‘‘ بھی پیش کی، لیکن اسکی تعلیمات کو قبول عام حاصل نہ ہوسکا اور اسکا فلسفہ کتابوں میں دفن ہوکررہ گیا ۔
طلوع اسلام کے وقت ساسانی حکمران ایران کے تخت پر جلوہ گرتھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب محسن انسانیت(ص) نے دیگربادشاہوں کی طرح ایران کے بادشاہ کسری پرویزکو بھی دعوتی خط لکھا تو وہ خط کے اوپر اپنے نام کی بجائے ﷲ تعالی کانام دیکھ کرسیخ پاہو اور خط کو چاک کردیا۔ اس نے اپنے یمنی گورنر’’باذان‘‘ کو حکم بھیجا کہ اس نبی (ص) کو گرفتار کر کے اسکے دربار میں پیش کیاجائے۔
’’باذان‘‘ مدینہ پہنچا اور مسلمان ہوگیا، اسے محسن انسانیت(ص) نے خبر دی کہ آج رات تمہارا بادشاہ قتل ہوگیا ہے، اس نے بعد میں اس سچی خبر کی تصدیق بھی کرلی۔ محسن انسانیت (ص) نے پیشین گوئی کی کہ جس طرح پرویزنے میرا خط چاک کیا ہے اسی طرح اسکی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ اس سے پہلے بھی غزوہ خندق کے موقع پر آپ(ص) نے فرمایا تھا کہ مجھے قیصروکسری کی کنجیاں دی گئی ہیں۔
خلیفہ دوم عمر(رض) کے دور میں ایران اسلامی ریاست کا حصہ بنا اورسچے نبی(ص) کی یہ سچی پیشین گوئی کی صداقت تاریخ نے ثابت کردی۔
خلیفہ دوم عمر(رض) کا منشاء تھا کہ ایران سے ٹکر نہ ہو اور وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ کاش ہمارے اور ایران کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا ۔ لیکن عراق کے جوعلاقے ایرانی سلطنت سے مسلمانوں نے چھین لیے تھے شاہ ’’یزدگر‘‘ ایرانی بادشاہ ان کے حصول کے لیے مسلسل تگ و دو کرتارہا اور مسلمان افواج اس سے ہمیشہ برسرپیکار رہیں۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اکابر صحابہ و اہل بیت مطہرین(رض) نے حضرت عمر(رض) کوایران پر لشکرکشی کا مشورہ دیا ۔
عمر(رض) خود اس بڑی کاروائی کی قیادت کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت علی کرم ﷲ وجہ نے انہیں مرکزچھوڑنے سے منع کردیا۔ تمام محاذوں سے افواج اسلامی کو ایران کی سرحدوں پر جمع ہونے کا حکم ہوا اور ایک طویل معرکے کے بعد ایرانی فوج نے منہ کی کھائی اور اسکے بعد بچے کھچے علاقے بھی فتح کر لیے گئے ۔
تب سے اب تک ایران امت مسلمہ کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور ہر دور میں ایران اور ایرانی مسلمانوں نے اسلامی شعائرکی ترویج اور اسلامی لٹریچرکی اشاعت میں اپنا قابل قدر حصہ ڈالا۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کا نام آئینی طور’’اسلامی جمہوریہ ایران‘‘رکھ دیاگیا اور اسکے جھنڈے میں بھی ﷲ تعالی کام شامل کیاگیا، انقلابی قیادت نے تعلیم اور معیشیت سمیت تمام شعبوں میں اسلامی اصلاحات کی ہیں ۔ اکیسویں صدی کی دہلیز پر پوری امت مسلمہ کی نگاہیں ایران کے ایٹمی پروگرام پر مرکوز ہیں۔
آفرین ہے ایرانی قیادت کوجو پورے عالمی دباؤ اور دھونس دھاندلیوں اور دھمکیوں کے باوجود اپنے موقف پرسختی سے قائم ہے اور سلام ہے ایرانی قوم کو جو اپنے تن من دھن کے ساتھ اپنی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔