رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”حسین منی وانامن الحسین“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدااسے دوست رکھے جوحسین کودوست رکھے (مطالب السؤل ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴ ،نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ ومسنداحمدجلد ۴ ص ۹۷۲ ،اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱) ۔
سرورکائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتاہواجنت کے قریب پہنچاتودیکھاکہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھاہواہے۔
”لاالہ الااللہ محمدحبیب اللہ علی ولی اللہ وفاطمة امةاللہ والحسن والحسین صفوة اللہ ومن ابغضہم لعنہ اللہ“
ترجمہ : خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدصلعم اللہ کے رسول ہیں علی ،اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں،حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱ )
امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم:
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسول اوراصحاب صفہ میںسے کہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیاررکررہے تھے ،اسی دوران میں فرمایا،ان ابنی ہذا یقتل بارض یقال لہاکربلاء فمن شہدذالک منکم فلینصرہ“ کہ میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گاجس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مددکرے۔
راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلامیں شہیدہوگئے تھے(اسدالغابہ جلد ۱ ص ۱۲۳ و ۳۴۹ ،اصابہ جل ۱ ص ۶۸ ،کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۲۳ ،ذخائرالعقبی محب طبری ص ۱۴۶) ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام جب پیغمبراسلام حضرت محمدمصطفی صلعم کی زندگی کے آخری لمحات سے لے کرامام حسن کی حیات کے آخری ایام تک بحرمصائب وآلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہدمیں داخل ہوئے جس کے بعدآپ کے علاوہ پنجتن میں کوئی باقی نہ رہاتوآپ کاسفینہ حیات خود گرداب مصائب میں آگیاامام حسن کی شہادت کے بعدسے معاویہ کی تمام ترجدوجہدیہی رہی کہ کسی طرح امام حسین کاچراغ زندگی بھی اسی طرح گل کردے، جس طرح حضرت علی اورامام حسن کی شمع حیات بجھاچکاہے اوراس کے لیے وہ ہرقسم کاداؤں کرتارہااوراس سے کامقصدصرف یہ تھاکہ یزیدکی خلافت کے منصوبہ کوپروان چڑھائے ،بالآخراس نے ۵۶ ء میں ایک ہزارکی جمیعت سمیت یزیدکے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجازکاسفراختیارکیا اور مدینہ منورہ پہنچا۔
وہاں امام حسین سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزیدکاذکرکیا،آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کاحوالہ دے کرانکارکردیا،معاویہ کوآپ کاانکار کھلاتوبہت زیادہ لیکن چندالٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوااورکچھ کرنہ سکا اس کے بعدمدینہ اورپھرمکہ میں بیعت یزید لے کرشام کوواپس چلاگیا۔ علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ معاویہ نے جب مدینہ میں بیعت کاسوال اٹھایاتوحسین بن علی، عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرنے بیعت یزید سے انکارکردیا اس نے بڑی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہ مانے اوررفع فتنہ کے لیے امام حسین کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے ۔
معاویہ ان کے پیچھے مکہ پہنچااوروہاں ان پردباؤڈالا لیکن کامیاب نہ ہوا،آخرکار شام واپس چلاگیا (روضة الشہداء ص ۲۳۴) ۔
معاویہ بڑی تیزی کے ساتھ بیعت لیتارہا اوربقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلہ میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کا دین بھی خریدلیے، الغرض رجب ۶۰ ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دنیاسے چلاگیا،یزیدجواپنے باپ کے مشن کوکامیاب کرناضروری سمجھتاتھا سب سے پہلے مدینہ کی طرف متوجہ ہوگیا اوراس نے وہاں کے والی ولیدبن عقبہ کولکھا کہ امام حسین ،عبدالرحمن بن ابی بکر،عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیرسے میری بیعت لے لے ،اوراگریہ انکارکریں توان کے سرکاٹ کرمیرے پاس بھیج دے ،ابن عقبہ نے مروان سے مشورہ کیااس نے کہاکہ سب بیعت کرلیں گے لیکن امام حسین ہرگزبیعت نہ کریں گے اورتجھے ان کے ساتھ پوری سختی کابرتاؤ کرناپڑے گا۔
صاحب تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ولیدنے ایک شخص (عبدالرحمن بن عمربن عثمان) کوامام حسین اورابن زبیرکوبلانے کے لیے بھیجا، قاصد جس وقت پہنچادونوں مسجدمیں محوگفتگوتھے آپ نے ارشادفرمایاکہ تم چلوہم آتے ہیں، قاصدواپس چلاگیااوریہ دونوں آپ میں بلانے کے سبب پرتبادلہ خیالات کرنے لگے امام حسین نے فرمایاکہ میں نے آج ایک خواب دیکھاہے جس سے میں یہ سمجھتاہوںکہ معاویہ نے انتقال کیااوریہ ہمیں بیعت یزیدکے لیے بلارہاہے ابھی یہ حضرات جانے نہ پائے تھے کہ قاصدپھرآگیا اوراس نے کہاکہ ولیدآپ حضرات کے انتظارمیں ہے امام حسین نے فرمایاکہ جلدی کیاہے جاکرکہہ دوکہ ہم تھوڑی دیرمیں آجائیں گے ۔
اس کے بعدامام حسین دولت سرامیں تشریف لائے اور ۳۰ بہادروں کوہمراہ لے کرولیدسے ملنے کاقصد فرمایا آپ داخل دربارہوگئے اوربہادران بنی ہاشم بیرون خانہ درباری حالات کامطالعہ کرتے رہے ولیدنے امام حسین کی مکمل تعظیم کی اورخبرمرگ معاویہ سنانے کے بعدبیعت کاذکرکیا ،آپ نے فرمایاکہ مسئلہ سوچ بچارکاہے تم لوگوں کوجمع کرواورمجھے بھی بلالومیں ”علی روس الاشہاد“ یعنی عام مجمع میں اظہارخیال کروں گا۔
ولیدنے کہابہترہے ،پھرکل تشریف لائیے گا ابھی آپ جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول اٹھا اے ولیداگرحسین اس وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے توپھرہاتھ نہ آئیں گے ان کواسی وقت مجبورکردے اورابھی ابھی بیعت لے لے اوراگریہ انکارکریں توحکم یزیدکے مطابق سرتن سے اتارلے یہ سننا تھا کہ امام حسین کوجلال آگیاآپ نے فرمایا”یابن الزرقا“ کس میں دم ہے کہ حسین کوہاتھ لگاسکے، تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبورکیاجاسکتاہے کہ ہم یزید جیسے فاسق وفاجراورشرابی کی بیعت کرلیں، امام حسین کی آوازکابلند ہونا تھاکہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہوگئے اورقریب تھاکہ زبردست ہنگامہ برپاکردیں لیکن امام حسین نے انہیں سمجھابجھاکرخاموش کردیا اس کے بعدامام حسین واپس دولت سراتشریف لے گئے ولیدنے ساراواقعہ یزیدکولکھ کربھیج دیااس نے جواب میں لکھاکہ اس خط کے جواب میں امام حسین کاسربھیج دو،ولیدنے یزید کاخط امام حسین کے پاس بھیج کر کہلابھیجا کہ فرزندرسول ،میں یزید کے کہنے پرکسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا لیکن آپ کوباخبرکرتاہوں اوربتانا چاہتاہوں کہ یزیدآپ کے خون بہانے کے درپے ہے_
امام حسین نے صبرکے ساتھ حالات پرغورکیااورناناکے روضہ پرجاکردرددل بیان فرمایااوربے انتہاروئے ،صبح صادق کے قریب مکان واپس آئے دوسری رات کوپھرروضہ رسول پرتشریف لے گئے اورمناجات کے بعد روتے روتے سوگئے خواب میں آنحضرت کودیکھاکہ آپ حسین کی پیشانی کابوسہ لے رہے ہیں اورفرمارہے ہیں کہ اے نورنظرعنقریب امت تمہیں شہیدکردے گی بیٹاتم بھوکے پیاسے ہوگے تم فریادکرتے ہوگے اورکوئی تمہاری فریادرسی نہ کرے گا امام حسین کی آنکھ کھل گئی آپ دولت سراواپس تشریف لائے اوراپنے اعزا کوجمع کرکے فرمانے لگے کہ اب اس کے سواکوئی چارہ کارنہیں ہے کہ میں مدینہ کوچھوڑدوں ،ترک وطن کافیصلہ کرنے کے بعدروضہ امام حسن اورمزارجناب سیدہ پرتشریف لے گئے بھائی سے رخصت ہوئے ماں کوسلام کیاقبرسے جواب سلام آیا، ناناکے روضہ پررخصت آخری کے لیے تشریف لے گئے روتے روتے سوگئے سرورکائنات نے خواب میں صبرکی تلقین کی اورفرمایا بیٹاہم تمہارے انتظارمیں ہیں۔
جب آپ کے بہتراصحاب وانصاراوربنی ہاشم قربان گاہ اسلام پرچڑھ چکے توآپ خوداپنی قربانی پیش کرنے لیے میدان کارزارمیں آپہنچے ،لشکر یزیدجوہزاروں کی تعدادمیں تھا،اصحاب باوفااوربہادران بنی ہاشم کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکاتھا امام حسین جب میدان میں پہنچے تودشمنوں کے لشکرمیں تیس ہزارسواروپیادے باقی تھے ،یعنی صرف ایک پیاسے کوتیس ہزاردشمنوں سے لڑناتھا (کشف الغمہ)۔میدان میں پہنچنے کے بعدآپ نے سب سے پہلے دشمنوں کومخاطب کرکے ایک خطبہ اراشادفرمایاآپ نے کہا:
”ائے ظالمو! میرے قتل سے بازآؤ،میرے خون سے ہاتھ نہ رنگو،تم جانتے ہومیں تمہارے نبی کانواسہ ہوں، میرے باباعلی سابق الاسلام ہیں، میری ماں فاطمة الزہراتمہارے نبی کی بیٹی ہیں اورتم جانتے ہوکہ میرے نانا رسول اللہ نے مجھے اورمیرے بھائی حسن کوسردارجوانان بہشت فرمایاہے،افسوس تم اپنے نبی کی ذریت اوراپنے رسول کی آل کا خون بہاتے ہواورمیرے خون ناحق پرآمادہ ہوتے ہو،حالانکہ نہ میں نے کسی کوقتل کیاہے نہ کسی کامال چھیناہے کہ جس کے بدلے میں تم مجھ کوقتل کرتے ہو،میں تودنیاسے بے تعلق اپنے نانارسول کی قبرپرمجاوربیٹھاتھا تم نے مجھے ہدایت کے لیے بلایااورمجھے نہ نانا کی قبرپربیٹھنے دیا نہ خداکے گھرمیں رہنے دیا،سنواب بھی ہوسکتاہے کہ مجھے اس کاموقع دے دو، کہ میں ناناکی قبرپرجابیٹھوں یاخانہ خدامیں پناہ لے لوں۔
اس کے بعدآپ نے اتمام حجت کے لیے عمرسعدکوبلایا اوراس سے فرمایا تم میرے قتل سے بازآؤ ۲ ۔ مجھے پانی دیدو ۳ ۔ اگریہ منظورنہ ہوتوپھرمیرے مقابلہ کے لیے ایک ایک شخص کوبھیجو۔
اس نے جواب دیاآپ کی تیسری درخواست منظورکی جاتی ہے اورآپ سے لڑنے کے لیے ایک ایک شخص مقابلہ میں آئے گا۔(روضة الشہداء)۔
جب آپ کے بہتراصحاب وانصاراوربنی ہاشم اسلام پر قربان ہو چکے توآپ خوداپنی قربانی پیش کرنے لیے میدان کارزارمیں آپہنچے ،لشکر یزیدجوہزاروں کی تعدادمیں تھا،اصحاب باوفااوربہادران بنی ہاشم کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکاتھا امام حسین جب میدان میں پہنچے تودشمنوں کے لشکرمیں تیس ہزارسواروپیادے باقی تھے ،یعنی صرف ایک پیاسے کوتیس ہزاردشمنوں سے لڑناتھا (کشف الغمہ)۔میدان میں پہنچنے کے بعدآپ نے سب سے پہلے دشمنوں کومخاطب کرکے ایک خطبہ اراشادفرمایاآپ نے کہا:
”ائے ظالمو! میرے قتل سے بازآؤ،میرے خون سے ہاتھ نہ رنگو،تم جانتے ہومیں تمہارے نبی کانواسہ ہوں، میرے باباعلی سابق الاسلام ہیں، میری ماں فاطمة الزہراتمہارے نبی کی بیٹی ہیں اورتم جانتے ہوکہ میرے نانا رسول اللہ نے مجھے اورمیرے بھائی حسن کوسردارجوانان بہشت فرمایاہے،افسوس تم اپنے نبی کی ذریت اوراپنے رسول کی آل کا خون بہاتے ہواورمیرے خون ناحق پرآمادہ ہوتے ہو،حالانکہ نہ میں نے کسی کوقتل کیاہے نہ کسی کامال چھیناہے کہ جس کے بدلے میں تم مجھ کوقتل کرتے ہو،میں تودنیاسے بے تعلق اپنے نانارسول کی قبرپرمجاوربیٹھاتھا تم نے مجھے ہدایت کے لیے بلایااورمجھے نہ نانا کی قبرپربیٹھنے دیا نہ خداکے گھرمیں رہنے دیا،سنواب بھی ہوسکتاہے کہ مجھے اس کاموقع دے دو، کہ میں ناناکی قبرپرجابیٹھوں یاخانہ خدامیں پناہ لے لوں۔
اس کے بعدآپ نے اتمام حجت کے لیے عمرسعدکوبلایا اوراس سے فرمایا تم میرے قتل سے بازآؤ ۲ ۔ مجھے پانی دیدو ۳ ۔ اگریہ منظورنہ ہوتوپھرمیرے مقابلہ کے لیے ایک ایک شخص کوبھیجو۔
اس نے جواب دیاآپ کی تیسری درخواست منظورکی جاتی ہے اورآپ سے لڑنے کے لیے ایک ایک شخص مقابلہ میں آئے گا۔(روضة الشہداء)۔
معاہدہ کے مطابق آپ سے لڑنے کے لیے شام سے ایک ایک شخص آنے لگا اورآپ اسے فناکے گھاٹ اتارنے لگے سب سے پہلے جوشخص مقابلہ کے لیے نکلاوہ ثمیم ابن قحطبہ تھا آپ نے اس پربرق خاطف کی طرف حملہ کیا اوراسے تباہ وبربادکرڈالا،یہ سلسلہ جنگ تھوڑی دیرجاری رہا اورمدت قلیل میں کشتوں کے پشتے الگ گئے اورمقتولین کی تعدادحدشمارسے باہرہوگئی یہ دیکھ کرعمرسعدنے لشکروالوں کوپکارکرکہاکیادیکھتے ہوسب مل کریکبارگی حملہ کردو، یہ علی کاشیرہے اس سے انفرادی مقابلہ میں کامیابی قطعا ناممکن ہے ،عمرسعدکی اس آوازنے لشکرکے حوصلے بلندکردئیے اورسب نے مل کر یکبارگی حملہ کافیصلہ کیا آپ نے لشکر کے میمنہ اورمیسرہ کوتباہ کردیاآپ کے پہلے حملہ میں ایک ہزارنوسوپچاس دشمن قتل ہوئے اورمیدان خالی ہوگیا ابھی آپ سکون نہ لینے پائے تھے کہ اٹھائیس ہزاردشمنوں نے پھرحملہ کردیا،اس تعدادمیں چارہزارکمانڈرتھے اب صورت یہ ہوئی کہ سورا،پیادے اورکمانڈروں نے ہم آہنگ وعمل ہوکرمسلسل اورمتواتر حملے شروع کردئیے اس موقع پرآپ نے جوشجاعت کاجوہردکھلایااس کے متعلق مورخین کاکہناہے کہ سربرسنے لگے دھڑگرنے لگے ،اورآسمان تھرتھرایا زمین کانپی، صفیں الٹیں، پرے درہم برہم ہوگئے۔
اللہ رے حسین کاوہ آخری جہاد
ہروارپرعلی ولی دے رہے تھے داد
آپ پرمسلسل وارہوتے رہے تھے کہ ناگاہ ایک پتھرپیشانی اقدس پرلگا اس کے فورابعدابوالحتوف جعفی ملعون نے جبین مبارک پرتیرماراآپ نے اسے نکال کرپھینک دیااورپوچھنے کے لیے آپ اپنادامن اٹھاناہی چاہتے تھے کہ سینہ اقدس پرایک تیرسہ شعبہ پیوست ہوگیا،جوزہرمیں بجھاہواتھا اس کے بعدصالح ابن وہب لعین نے آپ کے پہلوپراپنی پوری طاقت سے ایک نیزہ مارا جس کی تاب نہ لاکرزمین گرم پرداہنے رخسارکے بل گرے، زمین پرگرنے کے بعدآپ پھرکھڑے ہوئے ورعہ ابن شریک لعین نے آپ کے داہنے شانے پرتلوارلگائی اوردوسرے ملعون نے داہنے طرف وارکیا آپ پھرزمین پرگرپڑے ، اتنے میں سنان بن انس نے حضرت کے ”ترقوہ“ ہنسلی پرنیزہ مارااوراس کوکھینچ کر دوسری دفعہ سینہ اقدس پرلگایا، پھراسی نے ایک تیرحضرت کے گلوئے مبارک پرمارا۔
ان پیہم ضربات سے حضرت کمال بے چینی میں اٹھ بیٹھے اورآپ نے تیرکواپنے ہاتھوں سے کھینچا اورخون ریش مبارک پرملا، اس کے بعدمالک بن نسرکندی لعین نے سرپرتلوارلگائی اوردرعہ ابن شریک نے شانہ پرتلوارکاوارکیا،حصین بن نمیرنے دہن اقدس پرتیرمارا،ابویوب غنوی نے حلق پرحملہ کیا نصربن حرشہ نے جسم پرتیرلگائی صالح ابن وہب نے سینہ مبارک پرنیزہ مارا۔
یہ دیکھ کرعمرسعدنے آوازدی اب دیرکیاہے ان کاسرکاٹ لو، سرکاٹنے کے لیے شیث ابن ربیع بڑھا، امام حسین نے اس کے چہرہ پرنظرکی اس نے حسین کی آنکھوں میںرسول اللہ کی تصویردیکھی اورکانپ اٹھا،پھرسنان ابن انس آگے بڑھا اس کے جسم میں رعشہ پڑگیا وہ بھی سرمبارک نہ کاٹ سکا یہ دیکھ کر شمرملعون نے کہا یہ کام صرف مجھ سے ہوسکتاہے اوروہ خنجرلیے ہوئے امام حسین کے قریب آکرسینہ مبارک پرسوارہوگیا آپ نے پوچھاتوکون ہے؟ اس نے کہامیں شمرہوں ،فرمایاتومجھے نہیں پہچانتا ،اس نے کہا،”اچھی طرح جانتاہوں“ تم علی وفاطمہ کے بیٹے اورمحمدکے نواسے ہو، آپ نے فرمایاپھرمجھے کیوں ذبح کرتاہے اس نے جواب دیا اس لیے کہ مجھے یزیدکی طرف سے مال ودولت ملے گا(کشف الغمہ ص ۷۹) ۔ اس کے بعدآپ نے اپنے دوستوں کویادفرمایا اورسلام آخری کے جملے اداکئے۔/۹۸۸/ن