21 October 2016 - 23:27
News ID: 423976
فونت
ایک وقت تھا جب ہم مکتب جعفری کے عقائد اور متفقہ نظریات کے علاوہ سٹیج سے کچھ سنائے جانے کی کوشش کرنے والوں کا احتساب کرتے تھے، انہیں مجتھدین اور علماء حق کے خلاف زبان درازی پر روکا اور ٹوکا جاتا تھا اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کسی غلط پڑھنے والے کو جو غلط روایات اور گھڑی ہوئی باتیں پڑھتا تھا، اسے بھی روکا جاتا تھا، پھر ہم باہمی طور پہ قومی سطح پہ کسی مسئلہ کی وجہ سے تقسیم بندی کا شکار ہوگئے تو ہماری قومی آواز دب گئی، ہماری اجتماعی و قومی نمائندگی دم توڑ گئی، ہماری ملی و اجتماعی شناخت ایسے لوگ بن گئے، جن کا ملت کیساتھ بس پیسے کا رشتہ تھا، جو ملت کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اور من پسند عقائد و نظریات سے نیند کی گولیاں کھلا کے گہری نیند میں لے جانے کا ہنر جانتے تھے۔
مسجد جمکران کی مجالس محرم



 تحریر: ارشاد حسین ناصر

محرم الحرام کے ایام غم ابھی گذر رہے ہیں مگر وہ گرما گرمی اور جوش و جذبہ جو عشرہ اول میں دکھائی دیتا ہے، کسی حد تک ماند پڑ گیا ہے، پوری دنیا میں ایام غم میں تشیع کی طاقت و قوت کا ظاہر ہونا اور دنیا کے مختلف طبقات کو اپنی جانب متوجہ کرنا کس قدر موثر اور جاذب ہے، شائد ہم اس کا اندازہ نہ رکھتے ہوں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ امام حسین ؑ کی قربانی اور اس کا ذکر و یاد کے یہ ایام ہمیں بہت طاقت و قوت فراہم کرتے ہیں، ہمارے ہاں پاکستان میں محرم کے پہلے عشرہ میں چونکہ مساجد، امام بارگاہوں، گلیوں، بازاروں اور شاہراہوں پہ عزاداری و ماتم و نوحہ کی صدائیں گونجتی ہیں اور ہر سو یہ سلسلہ ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے ماحول میں ایک خاص رقت اور احساس رہتا ہے، عشرہ ثانی میں جلوس و روٹ ذرا تھم جاتے ہیں اور ان کی جگہ مجالس، شب بیداریاں اور محافل لے لیتی ہیں، جن کا انعقاد عمومی طور پہ کسی امام بارگاہ، کسی محدود جگہ پر ہونا ہوتا ہے، اس لئے وہ گہما گہمی اور ماحول میں گرمی دکھائی نہیں دیتی، اگر یہ کہا جائے کہ عشرہ اول کے بعد ہونے والی عزاداری میں ایک ٹھہراؤ اور سکون ہوتا ہے، اس کا اثر اس عنوان سے زیادہ ہوتا ہے کہ ملت کے سنجیدہ طبقات اور مجالس کو سمجھ کے سننے والے طبقات جو عمومی طور پر محرم کے عشرہ اول میں کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور انتظامی امور میں ان کی توجہ زیادہ رہ جاتی ہے جبکہ یہ لوگ ملت کی اہم اور موثر شخصیات ہوتے ہیں، جن کو کسی بھی قسم کا پیغام دینا اجتماعی نکتہ نظر سے بہت مفید ہوتا ہے، ان مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس عنوان سے دیکھا جائے تو ان مجالس کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، ان ایام میں برپا کی جانے والی عزاداری چاہے اس کا تعلق ماتم داری سے ہو یا مجالس و محافل کی صورت میں، ان پر خاص کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمارے سامنے لاہور میں برپا کی جانے والی مجالس کا سلسلہ ہے، جسے آج سے تقریباً بیس سال پہلے شروع کیا گیا تھا اور ان میں بہت سے نامور خطباء، مقررین، علماء تشریف لاتے ہیں اور علمی پیاس بجھاتے ہیں، یہ سلسلہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عقائد کے فتنے کو روکنے اور ملت کا ایک سنجیدہ فکر طبقہ پیدا کرنے میں بہت معاون ثابت ہوا ہے، ایسے سلسلے ہر شہر اور ایریا میں شروع کئے جائیں تو وہ لوگ جو جہالت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، ان کے اثرات کو روکا جا سکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب ہم مکتب جعفری کے عقائد اور متفقہ نظریات کے علاوہ سٹیج سے کچھ سنائے جانے کی کوشش کرنے والوں کا احتساب کرتے تھے، انہیں مجتھدین اور علماء حق کے خلاف زبان درازی پر روکا اور ٹوکا جاتا تھا اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کسی غلط پڑھنے والے کو جو غلط روایات اور گھڑی ہوئی باتیں پڑھتا تھا، اسے بھی روکا جاتا تھا، پھر ہم باہمی طور پہ قومی سطح پہ کسی مسئلہ کی وجہ سے تقسیم بندی کا شکار ہوگئے تو ہماری قومی آواز دب گئی، ہماری اجتماعی و قومی نمائندگی دم توڑ گئی، ہماری ملی و اجتماعی شناخت ایسے لوگ بن گئے، جن کا ملت کیساتھ بس پیسے کا رشتہ تھا، جو ملت کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اور من پسند عقائد و نظریات سے نیند کی گولیاں کھلا کے گہری نیند میں لے جانے کا ہنر جانتے تھے۔ بس واہ واہ کا دور دورہ شروع ہوگیا، خطباء نے مختلف شہروں میں واہ واہ کرنے والے دیہاڑی دار خرید رکھے تھے اور جب وہ مجلس پڑھتے تو انہیں ہر ایک جملے پر داد و تحسین دی جاتی، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، مگر ایک سنجیدہ فکر طبقہ بھی پیدا ہوچکا ہے، جو اس سارے ڈرامے اور مصنوعی کھیل سے دور ہے اور حقیقت و تحقیق کی بنیاد پر علمی باتوں کو ترجیح دیتا ہے اور دینی معاملات کو مجتھدین و علماء سے ہی حاصل کرنا چاہتا ہے، خطباء یا سٹیجر حضرات کو یہ حق نہیں دیتا کہ ان کے دینی معاملات کو نام نہاد عشق کا نام دے کر مجروح کریں۔

وہ مجالس جو ہمارے اجتماعی رنگ کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہیں اور ملت کی وحدت و طاقت کو ظاہر کرنے کا بہترین موقعہ فراہم کرتی ہیں، بعض عاقبت نااندیش اور دشمن نما دوستان کی وجہ سے ہماری ملی تقسیم اور تفریق کا باعث بنا دی گئی ہیں، بالخصوص جب سے ہماری قوم کی مرکزی سطح پر نمائندگی اور آواز نحیف و نزار ہوئی ہے، مختلف قسم کی آفات اور خرابات نے ملت کو بری طرح جکڑ لیا ہے۔ آئے روز اک نیا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہر دن ایک نئی سازش سامنے آجاتی ہے، ہر صبح اک نیا عقیدہ در آتا ہے، ہر شہر میں الگ قیادت اور راہنما سامنے آتے بلکہ ہر شہر کے مختلف امام بارگاہوں اور مساجد سے منسلک الگ الگ قیادتوں کی علیحدہ علیحدہ سوچ اور فکر دیکھنے اور سننے کو ملتی، جن کی قیادت میں نئے نئے عقائد اور نظریات مجالس و محافل کے اسٹیج سے بیان ہو رہے ہوتے ہیں، کوئی نماز کے خلاف بات کرتا تو کسی کو نماز کے مروجہ اور متفق طریقہ اور تربیت پر اعتراض ہونے لگا، کوئی مجتہدین کو دشنام دے رہا ہوتا ہے تو کسی کی زبان پر علی "اللہ" کا نعرہ ورد بنا ہوا سنا جاتا۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کوئی زنجیروں سے ماتم کرنا چاہتا ہے تو کوئی آگ پر، کوئی تپتی آگ پر لوہے کی زنجیروں کو خوب گرما کر پُرسہ دینا چاہتا ہے تو کوئی دائرے میں بغیر قمیض اُتارے ماتم کرنے والے پر اعتراض کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، اس محرم میں تو قائد مقاومت سید حسن نصر اللہ نے بھی ان رسومات اور عقائد کی سختی سے نفی کی ہے، جو جاہلیت پر مبنی ہیں اور تشیع میں پیش کئے جا رہے ہیں، کیا کوئی شخصیت یا جماعت پاکستان کے معروضی حالات اور حکمت کو سامنے رکھ کر ان غیر شرعی اور نادرست عقائد و نظریات کا راستہ روکنے کی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت محسوس کرے گا یا یونہی زمانے میں اندھیر مچائے رکھنے کو غنیمت جان کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن رہیں گے۔

آج پاکستان میں ہر طرف تفریق اور تقسیم کا سلسلہ جاری ہے، ذاکرین میں بہت سے لوگ صرف بہتر روابط سے اپنی روش کو درست سمت میں لے جانے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں، مگر جو کوئی تنظیمی ان سے رابطہ کرے وہ خشک مولویوں اور نام نہاد انقلابیوں کے لعن و طعن کا حقدار اور ولایت فقیہ کا دشمن تصور ہونے لگتا ہے، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ اسلام آباد میں ایک بزرگ عالم دین نے شیعہ حقوق کیلئے بھوک ہڑتال کی تو جہاں ملت کے دیگر طبقات نے اس کی بھرپور حمایت کی، وہاں ذاکرین کے معتبر اور محترم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور علماء کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ علماء جہاں انہیں بلائیں گے وہاں حاضر ہونگے، محرم الحرام و صفر امام حسینؑ اور ان کے اصحاب باوفا کی دین مبین کی سربلندی کیلئے قربانیوں کی یاد کو تازہ کرنے کا مہینہ ہے، جس میں صرف پاکستان میں کروڑوں حسینی ان مجالس و محافل میں شریک ہونا، ذاکرین و علماء سے مستفید ہونا باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں نیز انہیں سال بھر کے بعد موقعہ میسر آتا ہے کہ وہ علمی ابحاث سن سکیں۔ عقائد، مسائل دینیہ، احکام شرعیہ اور ملی و قومی حالات سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ ایک بے مثال اور لازوال ذریعہ ہوتا ہے، شائد ہی کسی اور قوم یا مکتب کے پاس اس طرح کا پلیٹ فارم ہو، شائد ہی اس سطح کے مواقع اپنی قوم سے مربوط ہونے اور ان کی تربیت و اصلاح کے کسی اور کے پاس میسر ہوں، مگر ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس پلیٹ فارم سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھا رہے، جس طرح اس کا حق ہے۔ اگر عزاداری کی بنیاد پر ایران میں اڑھائی ہزار سالہ مضبوط بادشاہت کا خاتمہ ممکن ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے چند داخلی مسائل حل نہیں کرسکتے۔؟

حقیقت کیا ہے؟ کیا ہمارے بزرگان و ذمہ داران نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے، کیا ذاکرین اور اسٹیج پر قابض پچانوے فی صد خطباء، ذاکرین و شعراء سے روابط کرکے انہیں وقت کے تقاضوں اور ملی و قومی درد کا احساس دلایا گیا ہے یا انہیں صرف اور صرف دشمن امام حسینؑ، مال بٹورنے والے، راگ سنانے والے، جاہل گنوار، بدکردار گردان کے ان سے لاتعلقی اور دوریاں اختیار کرکے ان کو دور کیا گیا ہے؟ ہم اس وقت حیران ہوتے ہیں کی جب وسیع تر اسلامی مفادات کے نام پر ہم ان عناصر، سیاسی و دینی شخصیات اور علماء سے ملاقاتیں کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں، جن کا شیعیت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور وہ اپنے مکتب پر سختی سے کاربند ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے سنجیدہ قسم کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اسٹیج سے بیان کئے جانے والے عقائد کی مخالفت یا ان کی نفی کرکے ہم نے دیکھ لیا ہے، اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں کہ یہ فتنے اب پہلے سے مضبوط اور زیادہ موثر ہو رہے ہیں۔ لہذا اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور اسٹیج پر معروف اور معقول حضرات سے بہتر روابط پیدا کئے جائیں اور انہیں اپنے قریب کیا جائے۔ انہیں بھی اپنے اداروں میں دعوت دی جائے، انہیں بھی رہنمائی فراہم کی جائے، انہیں بھی درست سمت اور راستہ دکھایا جائے اور وقت کے تقاضوں پر ان سے بھی بات کی جائے۔ انہیں بھی احساس دلایا جائے کہ وہ کم اہم نہیں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ موثر فرش عزا کے بانیان سے بھی قربتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں عقائد اور نظریات یا روابط کی بنیاد پر تقسیم کرکے یا انہیں کسی لیبل کا شکار کرکے خود سے دور نہ کیا جائے، یہ لوگ بہرحال موثر قوت ہیں، ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں کہ سوسائٹی میں تبدیلی لائی جا سکے اور ملت میں موثر اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں بانیان مجالس و جلوس ہائے عزا سے تنظیمی برادران اور ذمہ داران کے اچھے روابط ہوتے ہیں، وہاں بہت سی کوتاہیوں اور خامیوں پر کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے، ورنہ تو مقامی انتظامیہ ایسے لوگوں کو اپنے ہاتھ میں کر لیتی ہے اور موقعہ پرست یا ابن الوقت قسم کے لوگ ان مواقع پر فائدہ اٹھا لیتے ہیں، ابن الوقت قوم کے سٹیج کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں، مگر قومی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ چند افراد سازش کر کے کئی دفعہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں، جو کسی بھی طور ٹھیک نہیں ہوتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملت کو بھی اپنی سوچوں کے زاویئے بدلنے ہونگے اور اجتماعیت کیلئے کچھ اقدامات کرنا ہونگے، ہمارے خیال میں جب تک ملت مرکزی سطح پر ایسے سیٹ اپ اور نظم کی پابند نہیں ہوتی جو اخلاص، تقویٰ اور تحرک کی بنیاد پر بابصیرت و استقامت و شجاعت سے لبریز ہو اور مختلف درپیش مسائل میں سے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہو، ہم یونہی بھٹکتے رہیں گے، اس ملت کے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکیں گے۔۔۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے قومی سطح پر ایسے پلیٹ فارم سامنے آئے ہیں، جن سے ملت کے کئی مسائل حل ہوئے یا کم از کم حل کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے گئے، ایک شور مچایا گیا، عدل کی زنجیروں کو ہلایا گیا اور متعلقہ اتھارٹیز تک بات پہنچائی گئی، اس سے قبل تو باہمی جھگڑوں اور مرکزیت کے خاتمہ کے بعد قوم کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی تھی، جو دین سے بیزار ہیں اور تعلیمات محمدؐ و آل محمدؑ کی حقیقی روح سے بے بہرہ ہیں، ان کا راستہ اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ ہم سب اجتماعی رنگ میں ڈھل جائیں، کم از کم یہ ہو کہ ہم قومی و ملی مفادات پر ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں، یا جن باتوں پر ہماری مختلف قومی جماعتوں اور گروہوں پر یکساں موقف ہے، ان پر پوائنٹ سکورنگ کی بجائے مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی قدردانی ہونی چاہیئے، بالفرض محال زائرین کا مسئلہ کسی ایک فریق یا جماعت سے مربوط نہیں ہے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے جیسے بھی ہو، جس کی کاوش بھی ہو، اس کو حل ہونا چاہیئے۔ اسی طرح دیگر کئی مسائل ہیں، جن کا اجتماعی ملی مفاد سے تعلق ہے، یہ مشترکہ کاوشوں سے حل ہوں یا کسی ایک جماعت کی کوشش سے حل ہونا چاہیئے، محرم و صفر اتحاد و وحدت اور باہمی احترام کا مہینہ ہے، اس میں امام عالی مقام (ع) کا پیغام اور روشن راستہ کی طرف رہنمائی فراہم کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے، یہ بہت ہی وسیع معانی و مفاہیم و مواقع رکھتا ہے، اس لئے سب کو اپنی کاوشوں اور کوششوں کو بروئے کار لانا چاہیئے۔ جن لوگوں کی خواہش اور کوشش ہے کہ "زمانے میں یونہی رات رہے" انہیں ان شاء اللہ منہ کی کھانا پڑے گی۔/۹۸۸/ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬