تحریر: ایس ایم شاہ
28 ہزار مربع میل پر مشتمل جنت نظیر گلگت بلتستان قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا کا بلند ترین میدان دیوسائی کا میدان یہاں واقع ہے، دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں دوسرے نمبر پر کے ٹو ہے، یہ بھی یہاں واقع ہے، پاکستان کو چین کا ہمسایہ قرار دینے والا بارڈر بھی یہاں واقع ہے، جہاں سے اقتصادی راہداری کے عنوان سے اب 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کا سنگم بھی یہاں واقع ہے، معدنیات میں تو یہ ایریا اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی معدنیات سے اگر کماحقہ استفادہ کیا جائے تو شاید ہی یہاں کوئی غریب باقی رہ جائے، پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ بھی یہاں ہی سے گزر کر دوسری جگہوں کو سیراب کرتا ہے، یہاں کی آبادی لگ بھگ 20 لاکھ ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ زیست، مہمان نواز، شریف النفس، متدین اور اعلٰی درجے کے محب وطن ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، پاکستان کا سب سے پرامن ترین ایریا یہی ہے، پورے پاکستان میں سب سے کم قیدی یہاں کی جیلوں میں ہیں، محرم الحرام وغیرہ میں وعظ و نصیحت کے ذریعے روحانی اور نفسیاتی علاج کا سلسلہ ہونے کے باعث بہت سارے قیدی جیل سے ہی توبہ کرکے نکل جاتے ہیں، جس کے بعد وہ کبھی بھی کسی جرم کا مرتکب نہیں ہوتا، پاک بھارت مختلف جنگوں میں نہ صرف یہاں کے لوگوں نے ہر قسم کی قربانیاں پیش کی ہیں بلکہ یہاں کے پہاڑوں نے سپر کا اور یہاں کے چٹیل میدانوں نے پاک فوج کی تربیت گاہ کا رول ادا کیا ہے۔
دفاعی اعتبار سے سب سے اہم اور بلند ترین جنگی محاذ "سیاچن" بھی یہاں واقع ہے، ہر مشکل مرحلے پر یہاں کے باسیوں نے مملکت خداداد کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ جہاں یہاں کے باسیوں کی وفاداریاں اور قربانیاں بے شمار ہیں، وہیں یہاں کی محرومیاں بھی ناقابل شمار ہیں۔ پاکستان کو بنے 70 سال بیت جانے کے باوجود ابھی تک 18 سربراہان مملکت بدل چکے ہیں، لیکن ہر حکومت یہاں کے لوگوں کو لالی پاپ اور طفل تسلیوں پر ہی کام چلاتی رہی، ابھی تک آئینی حقوق کا خواب پورا نہ ہوسکا، جس کی بنا پر آج تک اتنا بڑا ایریا نصف وفاقی وزیر (کشمیر+گلگت بلتستان) اور ایک چیف سیکرٹری کے ہاتھوں اسیر ہے، ظاہری طور پر ایک حکومتی سیٹ اپ ہے، لیکن درحقیقت تمام اختیارات کی بازگشت انہی دو افراد کی طرف ہے، بدقسمتی سے آج تک یہاں کے باسیوں میں سے کسی کو بھی ان دونوں عہدوں کے قریب جانے کا بھی موقع فراہم نہیں ہوا، جب بھی حقوق کی بات چلتی ہے تو کشمیر کے مسئلے کو آگے لایا جاتا ہے، حال ہی میں سینیٹ چیئرمین کا بیان بھی بہت ہی افسوسناک ہے۔
یہاں پر وہی سوالات آتے ہیں جو درد دل رکھنے والے یہاں کے باسی کیا کرتے آئے ہیں۔ کیا بھارت سے الگ ہونے کے بعد بھی پاکستان بھارت سے منسلک ہے؟ کیا بنگال کی جدائی کے بعد بھی بنگال کے حقوق کا مسئلہ پاکستان سے مربوط ہے؟ کیا گلگت بلتستان کی آزادی میں کشمیری عوام کا بھی کوئی ہاتھ ہے؟ کیا پاکستان کے بننے کے بعد آج تک کسی کشمیری حکمران نے باضابطہ یہاں کا دورہ کیا ہے؟ کیا آج تک کسی بھی کشمیری حکمران نے یہاں کے حقوق کے لئے کوئی ایک بات بھی کی ہے؟ 73 کے آئین میں جب کشمیر کے لئے الگ قانونی حیثیت مل رہی تھی تو کیا اس میں گلگت بلتستان کو شامل کیا گیا ہے؟ جب ان سب کا جواب یقیناً نفی میں ہے تو پھر گلگت بلتستان کا کشمیر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر کبھی بھی مسئلہ کشمیر حل نہ ہو تو گلگت بلتستان کو بھی اس حالت میں رکھا جائے گا؟ یہ کہاں کی منطق ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے ایک چھوٹا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔
چین کی جانب سے راہداری منصوبے کے باعث پریشر بڑھنے کے سبب گذشتہ سال مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں یہاں کی قانونی حیثیت کی تعیین کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، بدقسمتی سے یہاں کے محرومین میں سے کسی کے حصے میں اس کمیٹی کی رکنیت بھی نہیں آئی، ستم بالائے ستم یہ کہ ایک سال سے زیادہ عرصے کے گزرجانے کے باوجود حال ہی میں وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے برملا کہا کہ ابھی تک اس کمیٹی کا فیصلہ مجھ تک بھی نہیں پہنچ پایا تو وزیراعظم تک تو دور کی بات ہے۔ در اصل نہ 73 کے آئین میں یہاں کے لئے کوئی شق موجود ہے اور نہ ہی بعد میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان میں کہیں گلگت بلتستان کا نام ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے تو آئین میں ترامیم کی جاتی ہیں، لیکن اتنے اہم مسئلے کے لئے آج تک کوئی ایک ترمیم عمل میں نہ آسکی۔
اب تو فاٹا کو بھی قومی دھارے میں لانے کا اعلان ہوگیا۔ قانونی طور پر پانچ سال کی مدت میں وہ باقاعدہ صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ شمار کیا جائے گا۔ وہاں کے عوام کے حوالے سے یہ خبر خوش کن ہے، لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاک فوج کے لئے جتنی مشکلات اس ایریے میں پیش آئیں، شاید ہی کہیں اور آئی ہوں، یہاں سے دہشتگردوں کو مار بھگانے کی خاطر پاک فوج کے 500 سے زائد جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور بہت سارے زندگی اور موت کی کشمش میں ہیں۔ جب ان کو آئینی حقوق دیئے جا رہے ہیں تو گلگت بلتستان کو کیوں ان حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب تک آئین پاکستان میں ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ قرار نہ دیا جائے، باقی تمام صورتیں ناقابل قبول ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں کے عوام، عوامی نمائندے، علماء و عمائدین سب مل کر آئینی حقوق کے لئے یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلند کریں، کیونکہ اب ہمارے لئے آئینی حقوق کا مسئلہ موت و حیات کا مسئلہ ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰