رسا ںیوز ایجنسی کی ہندوستانی ذرائع کے حوالے کے مطابق، ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کی عدالت نے طلاق کے مقدمے میں مسلمان مدعا علیہ کی جانب سے اپنی بیوی کو ایک نشست میں دی گئی تین طلاقوں (طلاقِ ثلاثہ) کو باطل، غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے رہائشی توصیف شیخ کی شادی 2013 میں عرشی خان نامی خاتون سے ہوئی تھی لیکن توصیف نے شادی کے کچھ دن بعد ہی عرشی سے رقم کا مطالبہ شروع کردیا جس پر عرشی اسے چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور اس نے اپنے شوہر کے خلاف " انسدادِ جہیز ایکٹ " کے تحت مقدمہ دائر کردیا۔
اکتوبر 2014 میں توصیف نے عدالت کے احاطے میں اپنی بیوی کو زبانی طلاق دے دی جس کے بعد ایک قانونی نوٹس کے ذریعے اپنی بیوی کو اطلاع دی کہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ عرشی خان اس نوٹس کے خلاف عدالت چلی گئی اور اب عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے یہ طلاق باطل اور کالعدم قرار دے دی ہے۔ عرشی خان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مدعا علیہ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ شریعت کے خلاف بھی ہے۔ اس نکتے کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے یہ طلاق منسوخ کردیں۔ فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکولر عدالت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک شرعی معاملے میں کوئی فیصلہ صادر کرے کیونکہ شریعت کی تشریح صرف اور صرف علماء یا پھر وہ لوگ کرسکتے ہیں جو شریعت کے ماہر ہوں۔ واضح رہے کہ اس وقت بھارت میں طلاقِ ثلاثہ (ایک نشست میں تین طلاقوں) کے معاملے پر شدید تنازعہ جاری ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ تین طلاقوں کے خاتمے کا سخت ترین مخالف رہا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اسی بورڈ نے اپنے حالیہ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے عام مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے، اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ شیعہ مسلمانوں کے نزدیک بھی ایک نشست میں تین طلاقیں دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی زبانی طور پر طلاق طلاق طلاق کہنے سے شرعی طلاق واقع ہوتی ہے بلکہ طلاق میں شرعی پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جن میں دو عادل گواہوں کو ہونا بھی ضروری ہے ۔/۹۸۸/ ن۹۴۰