رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله جعفر سبحانی مرجع تقلید نے «محاضرات فی فقه القرآن الکریم» کے سلسلہ جلسات کے دوسرے جلسہ میں آیت شریفہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَين» میں وضو کے احکام کے سلسلہ میں نکات بیان کئے ۔
مرجع تقلید نے کہا : اس آیت کے ابتدا کے سلسلہ میں جو سوال بیان ہوتا ہے یہ ہے کہ کیا نماز پڑھنے کی آیت وضو کرنے پر مقدم ہے ؟ بعض وقت قرآن کریم ایک فعل کو بیان فرماتا ہے لیکن اس کا مقصد اس کے فعل کا ارادہ ہے اور اس کے بر عکس ہے ۔ اگر اس قاعدہ کو جان لے نگے تو سمجہ میں آ جائے گا کہ «إذا قُمتُم إلی الصلاه» میں فعل بیان کرنے کا مقصد نماز قائم کرنے کے لئے ارادہ کرنے کے معنی میں ہے نہ نماز قائم کرنے کے معنی میں ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : عبارت «فاغسلوا وجوهکم» کہ جو اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو اعضاء وضو پر پانی کے جاری ہونے کے معنی میں ہے ۔ اس وجہ سے وضو کے وقت چہرے پر ہاتھ پھیرنا کافی نہیں ہے بلکہ پانی کو جاری ہونا چاہیئے ۔ معصومین (ع) نے وضو میں چہرہ کو دھونے کے لئے ہاتھ کے انگوٹھے اور بچلی آنگلی کے درمیان کے حصہ کو لازم جانا ہے لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ کان کے اپری حصہ کو بھی دھونا چاہیئے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے «مرافق» لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس آیت شریف میں اس کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا : اس لفظ کی بنیاد «رفق» ہے کہ آسانی کے معنی میں ہے کیوںکہ اہل لغت کے قول کے مطابق ہاتھ کا کھلنا اور بند ہونا مرفق کی وجہ سے ہے کہ حو یاتھ کے حرکت میں سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اس آیت کے سلسلہ میں شیعہ اور اہل سنت میں فرق ہاتھ دھلنے کے طرقہ میں ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف ہو یا اس کے بر عکس ۔
مرجع تقلید نے بیان کیا : اگر یہ حکم قید فعل ہو تو اہل سنت جس طرح وضو کرتے ہیں اس پر عمل کیا جائے لیکن اگر قید اسم ہو یعنی «أیدیکم» ہو تو اس پر دلالت نہیں کرتا ہے ۔ صرف یہ کہ ہمارے آئمہ اطہار ع نے اس موضوع پر حکم دیا ہے اور قرآن کریم کا خود مطالعہ کرنے سے ہاتھ دھلنے کا طریقہ مشخص ہوتا ہے اور ہم لوگ کہتے ہیں کہ «أیدی» لفظ سے مراد «إلی المرافق» عبارت پر توجہ کرتے ہوئے ہاتھ دھلنے کا مقدار ہے نہ کہ دھلنے کی کیفیت ہے ۔ پس وہ چیز جو بیان کرنے کی ہے قرآن کریم کا «ایدی» سے کیا مراد ہے اور اسی وجہ سے اس آیت شریفہ میں «إلی المرافق» کو بیان کیا گیا ہے ۔ ہاتھ دھلنے کی کیفیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ معمولا ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھلا جاتا ہے جو آسان بھی ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے «وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَين» آیت شریف کے پیغام کو بیان کرتے ہوئے کہا : «أرجلکم» لفظ کی دو قرائت ہے ؛ اگر نصب ہو تو عطف بر محل «برؤوسکم» ہے اور اگر جر ہو تو عطف بر ظاہر «برؤوسکم» ہے ۔ اس وجہ سے ہر دو صورت میں ہم اس دو محل کا مسح کریں حالانکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ پیر کو دھونا چاہیئے اور اس کی وجہ بیان کی ہے کہ یہ «وجوهکم» پر عطف ہوا ہے ۔ حالانکہ اگر ایسا ہو تو معطوف و معطوف علیہ کے درمیان میں جملہ معترضہ ہونا چاہیئے کہ مخل بہ مراد ہے ۔ اگر پاوں بھی دھلنا ضروری ہوتا تو قرآن کریم جہاں پر چہرے کو دھلنے کا حکم دیا ہے وہیں پہ پاوں کے بھی دھلنے کا حکم دیتا ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۷۰۵/