25 October 2017 - 12:21
News ID: 430523
فونت
ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خدا نخواستہ داعش نے اگر کرم ایجنسی پر حملہ کر دیا تو اہلیان کرم کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا۔ وہ یوں کہ سرکار کیجانب سے انکے لئے اسلحہ کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ آسانی سے ایک دوسرے کی کمک کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اسلحہ کی نقل و حمل پر پابندی اور حکومت کی کڑی نگرانی کیوجہ سے لوگ اسلحہ ظاہر کرنے سے گریز کرینگے۔ چنانچہ اسلحہ نہ ہونے کیوجہ سے دشمن کی مزاحمت میں مشکل پیش آئیگی۔
داعش

 
تحریر: سالار جعفری

افغان ممبر پارلیمنٹ کے حالیہ بیان کے حوالے سے راقم نے کرم کی اہم شخصیات سے جب رابطہ کیا تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعض شخصیات کا یہاں تک کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں خصوصاً تورہ بورہ اور تری منگل کے قریب سرحدی علاقے اریوب وغیرہ میں داعش کی صف آرائی کے حوالے سے ایک اہم سرکاری شخصیت کے توسط سے گذشتہ رمضان میں ہمیں اطلاع ملی تھی۔ یعنی اس حوالے سے انہیں تقریباً چھ ماہ پہلے معلومات حاصل تھیں۔ اس اطلاع پر ہمارے تعجب میں مزید اضافہ ہوا کہ ہماری اہم شخصیات کو حاجی ظاہر قدیر سے بھی کئی ماہ پہلے علم تھا، جبکہ اس سے بھی زیادہ حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ جب ہمارے رہنماؤں کو ایسی صورتحال کا پہلے ہی سے علم بھی ہے، تو وہ ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟
اس خطرناک سرحدی صورتحال کے حوالے سے راقم نے کئی اہم شخصیات، جن میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، علماء یونیورسٹی اسٹوڈنٹس شامل تھے، کی رائے حاصل کی، تاہم موجودہ صورتحال کے پیش نظر سب نے اپنا نام ظاہر کرنے پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا۔

ایک ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ سرحدوں پر داعش کے اجتماع کے حوالے سے تمام خبریں من گھڑت ہیں، کیونکہ یہ کوئی معمولی خبر نہیں بلکہ بہت بڑی خبر ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو دنیا بھر کے میڈیا کو اس حوالے سے بہت ساری معلومات ہوتیں،حالانکہ اس حوالے سے میڈیا کے علم میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ایم ایس سی فزکس کے یونیورسٹی اسٹوڈنٹ نے پشتو کا یہ ضرب المثل بیان کرتے ہوئے کہا،"زان ساتلے خہ دے، غلہ تہ مہ وایہ چہ غل ئے۔" یعنی اپنی حفاظت ضروری ہے، جبکہ کسی کو چور کہنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبریں کچھ کم خطرناک نہیں، تاہم اگر انہیں فرضی بھی مان لیا جائے تو پھر بھی یہ بات طے ہے کہ ذرا سا بھی ہوشیار فرد کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں اپنی حفاظت کا بھرپور بندوبست کرلیتا ہے۔ چنانچہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ کچھ ہو یا نہ ہو، موجودہ صورتحال میں ہمیں فل تیاری کرنا چاہئے۔ سکول کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر صاحب کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے تو وہی 2006ء کی سی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ جب طالبان نے کرم میں تازہ تازہ سر اٹھایا تھا۔ لوئر کرم کی جانب سے ایکا دٗکا واردات عمل میں لائی جاتی تھی۔ کھلے عام ہتھیار کی نمائش کی جاتی تھی، پھر سکول کے طلباء اور بچوں کی اغوا کی وارداتیں شروع ہوئیں۔ ہم اس وقت بھی اپنے باہمی اختلافات میں الجھے ہوئے تھے اور یوں ہماری خاموشی اور غفلت کو دیکھ کر 2007ء میں پانی سر سے گزر گیا اور ایک خونریز جنگ شروع ہوگئی، جسکے نتیجے میں ہزاروں گھر تباہ، لاکھوں افراد بے گھر اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہاتھ سے جاں دھو بیٹھے۔

برسر روزگار ایک قابل انجنیئر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے آنکھیں بند رکھنا ہماری حماقت ہوگی۔ یہ ایک ٹھیک ٹھاک رپورٹ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے قومی اداروں، خصوصاً مرکزی انجمن حسینیہ، تحریک حسینی اور انکے سرپرستوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ انکا کہنا تھا کہ عوام میں سے اکثریت کی نظریں انہی دو اداروں اور انکے سرپرست علماء یعنی علامہ فدا حسین مظاہری اور علامہ سید عابد حسینی پر ہیں، جبکہ یہ لوگ خاموش بیٹھے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ انتخابات کے موسم میں تو یہ لوگ دن رات ایک کرکے گھر گھر جاکر عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے سے بھی کبھی تھکتے ہیں، نہ ہی شرماتے ہیں، جبکہ آج قوم ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ جگہ جگہ ایف سی کے چھاپوں کے دوران اسلحہ چھینا گیا۔ چادر اور چاردیواری کی بیحرمتی ہوئی۔ خواتین کو گھروں سے نکل جانے کا کوئی موقع فراہم کرنے کی بجائے بغیر کسی مہلت کے انکے گھروں میں گھس کر گھروں کی تلاشی لی گئی اور گھر کا سارا سامان لوٹ لیا گیا۔ اسکے باوجود یہ لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، جو کہ نہایت قابل افسوس ہے۔

میرے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہماری قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ دشمن آنگن میں پہنچنے پر بھی ہم اپنے باہمی اختلافات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ جو لوگ ان حالات میں بھی اپنوں میں ایک دوسرے کی عیب جوئی میں مصروف ہیں، وہ اپنے نہیں بلکہ غیروں کے ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے مرکز اور تحریک کی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے متعلقہ ادروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی صفوں سے مفاد پرست کالی بھیڑوں کو فوری طور پر نکال باہر کریں۔ ایک برجستہ افغان عالم دین، جس نے ایک عرصہ پاکستان میں گزارا ہے، کا ٹیلی فون پر کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں پر داعش یا دیگر دہشتگردوں کی صف آرائی میں حکومت پاکستان اور انکے خفیہ اداروں کا آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے کردار دکھائی دے رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ افغانستان میں آج تک، جو امن نہیں آسکا ہے، یہ دراصل اس سرزمین کے اندر پاک و ہند کی ٹکر ہے۔ ان دونوں ممالک نے اپنی سرزمین کی بجائے افغان سرزمین کا انتخاب کرکے ایک دوسرے پر وار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل 1996ء میں بھی انڈیا اور روس نے شمالی اتحاد جبکہ پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے طالبان کی شکل میں اس سرزمین کو استعمال کیا، چنانچہ سرحدوں پر داعش کی سرگرمیوں کی خبروں میں اگر کوئی صداقت ہے تو اس میں پاکستان کا ہاتھ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہوگا۔

مذکورہ بالا افراد کے بیانات نیز ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خدا نخواستہ داعش نے اگر کرم ایجنسی پر حملہ کر دیا تو اہلیان کرم کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ یوں کہ سرکار کی جانب سے انکے لئے اسلحہ کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ آسانی سے ایک دوسرے کی کمک کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اسلحہ کی نقل و حمل پر پابندی اور حکومت کی کڑی نگرانی کی وجہ سے لوگ اسلحہ ظاہر کرنے سے گریز کریں گے، چنانچہ اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے دشمن کی مزاحمت میں مشکل پیش آئے گی۔ ایک قوی امکان یہ بھی ہے کہ داعش کی نقل و حرکت شاید سرکار کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہو، وہ یوں کہ داعش کے حملے کی صورت میں طوری قبائل مقابلے کے لئے اپنا اسلحہ نکالیں گے تو جگہ جگہ چھاپے مارنے کی بجائے سرکار کو نہایت آسانی سے اور اکٹھا تمام اسلحہ مل جائے گا۔ چنانچہ ایسی صورتحال سے پیشگی نمٹنے کے لئے قوموں خصوصاً علمائے کرام اور تنظیموں کا اتحاد نہایت ضروری ہے اور یہ کہ وہ سب ملکر حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کریں کہ نہتے ہوکر ہم اپنی عزت و ناموس دشمنوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬