ملیکۃ العرب خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کون؟
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ہجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں، وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔ وہ بااخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح سے کرتے ہیں، (انّ خديجةَ اِمْرَأَةٌ كامِلَةٌ مَيمُونةٌ فاضِلَةٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار)۱۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اور فاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کے ننگ و عار اور بدنامی سے دور ہے۔ وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجود اپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں (۔۔وَ كُنْتُ أَنَا أَشْبَهَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَةَ اَلْكُبْرَى) ۲۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والا ہوں۔ وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سے ایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔
وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ (ص) کے ساتھ ادا کی۔
آپ وہ پارسا خاتون ہیں جن کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے فرماتے ہیں، (لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله و خدیجہ و انا ثالثھا) ۳۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھا بجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور تیسرا فرد میں تھا۔ وہ مالدار خاتون جو تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔ وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھا، جو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالک تھیں۔ وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ وہ نجیب خاتون جو نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ وہ پاکدامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔
وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو، ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ (ع) کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔ وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا اور اس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا، "اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راستگو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے)"۔ وہ ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے (ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الدی سید مرتضٰی کتاب شافی اور شیخ طوسی کتاب تلخیص شافی) کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا۔۴ وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔
وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر دی اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔ وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے، (ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة)۵۔ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔ وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا، دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔ ا۔ خدیجہ بنت خویلد ۲۔ فاطمہ بنت محمد ۳۔ مریم بنت عمران ۴۔ آسیہ بنت مزاحم۔ وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر (کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کر دی ہے)، رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ و سلم نے غضبناک ہو کر فرمایا، (لا والله ما ابد لنی اللہ خیرا منھا اٰمنت بی اذکفر الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس و واستنی بھا لھا اذحرمنی الناس و رزقنی منھا الله ولدا دون غیرھا من النساء) ۶۔ خدا کی قسم خدا نے مجھے اس سے بترل عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے، اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کر دیا تھا، اور خدا نے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔
وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں، (قال لي جبرائيل: بشّر خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه و لا نصب فيه، يعني قصب الزمرد) جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ قصر زمرد کا بنا ہوا ہے۔ ۷ وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے۔ وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے، تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مرجھائے ہوئے چیر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔ وہ پرہیزگار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ، (الإیمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ) ۸۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔
وہ باکمال خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنی اور انکے مذاق (کہ انہوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی) کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا، کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کر سکتی ہیں؟ وہ اطاعت گذار خاتون جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انہیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور انکی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے رہتے تھے۔ وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں حسن اور حسین علیہما السلام کی شان میں فرمایا، (ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟) اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین انسان ہیں؟ لوگون نے عرض کی؛ جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا، (الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جدتھما خدیجہ بنت خویلد)9۔ وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے آئمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،"معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں "ہند" اور دادی "نثیلہ" ہے (اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینی عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے) اس لئے تم اس قسم کے برے اور ناپسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو، میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا، (أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ)۱۰۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ (س) بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟ سب نے کہا جانتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرواتے ہیں، (انا بن خدیجۃ الکبری)۔۱۱ میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری (س) کا بیٹا ہوں۔ وہ خوش قسمت خاتون جن کا کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عبا تھی۔ آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا، " اے میری نور چشم؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ (ص) سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔۱۲
وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرائیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی، "یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھالیں۔ وہ مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اور جبرئیل امین سلام بھیجتے ہیں۔ ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو؟ جبرئیل امین نے کہا،(حاجتي أن تقرأ على خديجة من الله و مني السلام) میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام کہئے۔ جب پیامبر خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو امیر المؤمنین نے فرمایا، (إن الله هو السلام، و منه السلام، و إليه السلام، و على جبرئيل السلام)۔ بیشک اللہ خود سلام ہے و تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔۱۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ بحارالانوار، ج۱۶،ص ۵۶-۷۵۔
۲۔ بحارالانوار، ج۲۴،ص۳۱۶۔
۳۔ بحارالانوار،ج۱۵ ، ص 361
۴۔ ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب ، ج۱، ص۱۵۹۔
۵۔ الاصابہ ج /۸ص /۱۰۱ ، اسد الغابہ ج/۵ص /۴۳۱، سنن ترمذی کتاب مناقب /۳۸۸۶۔
۶۔ بحارالانوار، ج 19، ص 63.
۷۔ صحیح بخاری،ج 3 / 1389، الرقم : 3608۔ابن حیون 1409ق 3/ 17
۸۔ کلینی، الکافی، ج2، ص 27۔
۹۔ بحارالانوار، ج۴۳،ص۳۰۲۔
۱۰۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۳۱۸۔
۱۱۔ بحارالانوار، ج۴۴،ص۱۷۴۔
۱۲۔ خدیجہ ہمسرپیامبر، اسطورہ ایثار و مقاومت ،محمد محمدی اشتہاردی ،ص۲۶۲۔
۱۳۔ عیاشی،1380ق: ج2ص279؛ابن عبدالبر،1412: 4/1821؛ابن اثیر 1409: 8/102۔
/۹۸۸/ن ۷۰۱