تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پاکستان ووٹ کی طاقت سے حاصل کیا گیا، سب سے بڑا مسلم خطہ ہے۔ قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے بھرپور انتخابی مہم کے ذریعے 1946ء کے انتخابات میں مرکزی اسمبلی کی تقریباً تمام مسلم نشستیں جیت لیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ برصغیر میں ہر آدمی کو ووٹ کا حق ابتدا میں ہی نہیں مل گیا تھا بلکہ شروع میں یہ حق فقط انگریز کی وفادار اشرافیہ کو حاصل تھا مگر انگریزوں نے بدلتے حالات اور اس خطہ ارضی پر اپنا قبضہ مستحکم ہو جانے کی وجہ سے تمام لوگوں کے لئے اس حق کو تسلیم کر لیا۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں نے جہاں حکومت کے انتظامی ڈھانچے کو مفلوج کرکے رکھ دیا، بالکل اسی طرح سیاسی ڈھانچے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ وہ علاقے جو مسلم لیگ کے لئے سیاسی دماغ کی حیثیت رکھتے تھے، یو پی اور سی پی وغیرہ وہ انڈیا میں رہ گئے اور مسلم لیگ کے لئے دماغ کا کام کرنے والا تعلیمی ادارہ علی گڑھ بھی ہندوستان میں رہ گیا۔ اس طرح سیاسی اعتبار سے لٹی پٹی قیادت پاکستان کے حصے میں آئی، مضبوط سیاسی ورکرز اور تنظیمی سیٹ پاکستان نہ آسکا۔ لیاقت علی خان کرنال انڈیا میں پیدا ہوئے اور ان کی طاقت کا مرکز وہی جگہ تھی، اسی طرح تحریک پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کا کر دار ادا کرنے والے راجہ صاحب محمود آباد کا تعلق لکھنو سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور محمود آباد سے تھا، ان کی قوت کا اصل علاقہ بھی انڈیا میں رہ گیا۔ اس نئی مملک میں ان جیسے اہم ترین لوگوں کی حیثیت مہاجر کی سی ہوگئی۔
قائد اعظم جلد دنیا سے چلے گئے، لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا اور راجہ صاحب محمود باد جیسے سینکڑوں با صلاحیت لوگوں کو بے حیثیت کر دیا گیا، اس سے معاشرے میں قیادت کا ایک بحران پیدا کیا گیا، جس میں سیاسی عمل رک جاتا ہے۔ حسین شہید سہروردی سے لیکر محمد علی بوگرا تک ایک ایک کرکے سیاسی لوگوں کو بے عزت کیا جاتا رہا۔ وطن عزیز میں یہ المیہ رہا کہ سیاستدانوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ دیے جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈھاکہ سے ایک نوجوان اپنی سائیکل پر قائد اعظم سے ملنے کلکتہ گیا تھا، جسے قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد غدار کہا گیا اور یہی بعد میں جدید بنگلہ دیش کا بانی مجیب الرحمن بنا، وہی بنگلہ دیش جسے یاد کرکے بزرگوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور وہ آج بھی اسی مشرقی پاکستان کہنے پر اصرار کرتے ہیں اور ہم جیسے لوگ ڈھاکہ کو ان چھوا خواب سمجھتے ہیں، جسے وقت کے طوفان نے اپنوں کی سادگی اور دشمنوں کی عیاری کی وجہ سے مکمل دیکھنے بھی نہ دیا۔
ماہرین کے مطابق اس سیاسی گھٹن کو سب سے زیادہ بنگلہ دیش میں محسوس کیا گیا، کیونکہ جنگ پلاسی میں اہل بنگال کی شکست کے بعد سے آزادی تک تقریباً دو سو سال تک انگریزوں کی غلامی میں رہے، انہوں آزادی کی صبح دیکھنے کے لئے ہم سے زیادہ قربانیاں دیں۔ پنجاب انگریزوں کے قبضے میں آنے والا ہندوستان کا شائد آخری بڑا علاقہ تھا۔ مغربی پاکستان میں بسنے والوں نے ایک سو سال کی غلامی کی تھی۔ اس لئے اہل بنگال کا سیاسی شعور ہم سے بہت زیادہ تھا، اسی شعور کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں ہی عمل میں آیا اور وہیں سے مسلم حقوق کی جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ سیاسی قیادت سے حکومتی نظم کو بیروکریسی کی طرف منتقل کیا جانے لگا، امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا سے لیکر غلام محمد تک کے دور کو آپ بیروکریسی کا دور کہہ سکتے ہیں، اس دور میں اداروں کی ایک اسٹیبلشمنٹ تشکیل پا رہی تھی، اس لئے یہ نظریہ پنپنے لگا کہ سیاستدان نیم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، اس لئے وہ درست فیصلہ نہیں کرسکتے، لہذا تربیت یافتہ بیروکریسی تمام ملکی مسائل کا حل ہے۔
کچھ تجربات کے نیتجے میں یہ پتہ چلا کہ بیروکریسی کے بابوں اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو حکومت دی جائے، اس لئے یہ ضروری خیال کیا گیا کہ حکومت فوج جیسے منظم ترین ادارہ کو دی جائے کیونکہ صرف اسی کے پاس حکومت چلانے کی اہلیت ہے، اس لئے وزیر دفاع سے ایوب خان فیلڈ مارشل بن کر وطن عزیز کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے میدان میں آگئے۔ ایوب خان نے ملک میں آمریت کی بنیاد رکھی اور ملک کے لئے بہت سے معاشی منصوبوں کا آغاز بھی کیا۔ مسئلہ سیاسی گھٹن کا تھا، قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح موجود تھیں، ساری اپوزیشن نے مل کر ایوب خان کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ فاطمہ جناح وہ واحد رہنما تھیں، جن پر پورا پاکستان متفق تھا۔ ایوب خان کے عوامی انتخاب کی بجائے خود ساختہ طریقہ انتخاب کے نتیجہ میں محترمہ فاطمہ جناح ہار گئیں۔ اس واقعہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ فاطمہ جناح کی نہیں مکمل سیاست کی شکست تھی۔ اس سے سیاسی پاکستان کا سیاسی سفر رک گیا اور پاکستان بنانے والی متحرک لیڈر شپ پس منظر میں چلی گئی۔
فاطمہ جناح کی ہار نے مہاجر طبقے کو بہت مایوس کیا، رہی سہی کسر لسانی بنیادوں پر منائے گئے ایوب خان کے جشن فتح نے پوری کر دی۔ کراچی آج تک اس شکست کے اثرات سے نہیں نکل سکا۔ اس لسانی آگ نے جہاں مہاجروں کو عدم تحفظ کا احساس دلایا، وہی بنگلہ دیش کے لوگوں میں بھی مرکز گریز رجحانات کو جنم دیا۔ وہاں پہلے ہی یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ مرکز میں کسی بنگالی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ جب مغربی پاکستان میں قائداعظم کی بہن کو قبول نہیں کیا گیا تو ہمیں کیسے قبول کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے حالات کے خراب کرنے میں ہندوستانی پیسے اور اسلحے نے اہم کر دار ادا کیا ہوگا، اسی طرح ان کا پروپیگنڈا بھی مؤثر رہا ہوگا اور کچھ بنگالی بھی انڈیا کے ساتھ ملے ہوں گے، مگر کچھ بنیادی غلطیاں ہماری اپنی تھیں، جنہوں نے وہاں کے عوام میں ان خدشات کو حقیقت بنانے کا کردار ادا کیا، جو پاکستان دشمن عناصر کر رہے تھے۔ ایوب خان کے دور میں کنٹرول جمہوریت کے نام پر آمریت قائم رہی اور ان کے جاتے ہی انتخابات ہوئے اور پھر اکہتر کا سانحہ ہوگیا۔ یہ سانحہ ہمارے لئے قدرت کا ایک طمانچہ تھا کہ سنبھل جائیں، ہم سنبھلے ہیں یا نہیں؟ اس جواب اگلی اقساط میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز