03 December 2018 - 11:27
News ID: 437813
فونت
موجودہ اسرائیلی حکومت غزہ میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ گولان ہائٹس کا محاذ اس کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ لیکن اسرائیل کے حالیہ حملوں میں شام کا فضائی ڈیفنس سسٹم ابھر کر سامنے آیا ہے اور اب اسرائیل کی ایک اور کمزوری واضح ہو چکی ہے۔
اسرائیل

تحریر: محمد مرادی

2011ء میں شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز کے بعد شام آرمی اس بحران کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہو گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے شام کے جنوبی حصوں کو مسلسل ہوائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لیکن ایران، حزب اللہ لبنان اور روس کی مدد سے جب شام آرمی نے دہشت گرد عناصر کو شکست دے کر نابود کر دیا تو اس اسٹریٹجک شعبے میں بھی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ گذشتہ تین سال کے دوران اسرائیل نے ایران اور حزب اللہ لبنان کو شام کے جنوبی حصوں میں آنے سے روکنے کی سرتوڑ کوشش کی کیونکہ وہ اسے اپنی قومی سلامتی کیلئے شدید خطرہ تصور کرتا ہے۔ لیکن اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور شام آرمی نے ایران اور حزب اللہ لبنان کی مدد سے جنوبی علاقوں میں بھی دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گولان ہائٹس کا علاقہ جسے اسرائیل اپنے لئے پرامن جگہ تصور کرتا تھا اب ایک نئے محاذ میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہاں سے اسرائیل کو نئے سکیورٹی خطرات درپیش ہو گئے ہیں۔ اب شام کی فضا ماضی کی طرح اسرائیل کیلئے محفوظ نہیں رہی۔
 
انہی وجوہات کی بنا پر اسرائیل نے گذشتہ 75 روز میں شام کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ اسرائیل کے اس خوف کی ایک اور وجہ شام میں روس کے جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ایس 300 کی موجودگی ہے۔ گذشتہ برس ستمبر کے مہینے میں جب اسرائیلی جنگی طیاروں کی جارحیت کے دوران روس کا ایک جاسوسی طیارہ شام کی حدود میں سرنگون ہوا تو روس نے شام میں اپنا جدید میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اسرائیل نے گذشتہ ہفتے جمعرات کو شام پر دوبارہ ہوائی حملہ کیا ہے لیکن اس کی جانب سے فائر کئے گئے تمام میزائل ہوا میں ہی تباہ کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فضا جدید دفاعی سسٹم کی مدد سے مکمل طور پر محفوظ ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شام نے اعلان کیا ہے کہ اس نے حالیہ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم کا استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے ہی ترقی یافتہ میزائل ڈیفنس سسٹم کو بروئے کار لایا ہے۔
 
شام پر اسرائیل کے حالیہ ہوائی حملوں سے متعلق اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض فوجی ماہرین کی نظر میں یہ حملہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے شام کے فوجی ٹھکانوں پر ہوائی حملوں کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ حملے ادلب میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے انجام پا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں مشرقی غوطہ میں اسرائیل نے پہلے شام آرمی کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے بھی ایسے ہی ہوائی حملے انجام دیئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل کی سلامتی شدید خطرے سے دوچار ہے۔ جب اسرائیل نے لبنان سے پسماندگی اختیار کی تو اسے شمالی محاذ پر ایک نئے سکیورٹی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد جب اسرائیل نے حزب اللہ لبنان سے 33 روزہ جنگ میں شکست کھائی تو مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں نئی سکیورٹی مساوات حکمفرما ہو گئی۔ اس شکست کے بعد اسرائیل نے انٹیلی جنس کے شعبے میں اسلامی مزاحمت پر ضرب لگانے کی کوشش کی۔ لیکن آج خود صہیونی حکام اس حقیقت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کا شمار دنیا کی طاقتور ترین فوجی طاقتوں میں ہوتا ہے۔
 
دوسری طرف اسرائیل اپنے جنوبی محاذ پر بھی فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں مکمل شکست کا شکار ہو چکا ہے۔ چند ہفتے پہلے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس سے جھڑت کے دوران اس تنظیم نے غزہ کی پٹی سے تقریباً 470 راکٹ فائر کئے جس کے بعد اسرائیل جنگ بندی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے چند دن کے اندر اندر جنگ بندی قبول کئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی محاذ بھی اسرائیل کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں ایک تیسرا محاذ بھی کھل چکا ہے جو گولان ہائٹس کا محاذ ہے۔ اب تک اسرائیل اس طرف سے بے فکر تھا اور اسے اطمینان تھا کہ گولان ہائٹس کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن ایک طرف حزب اللہ لبنان جبکہ دوسری طرف شام حکومت اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ گولان ہائٹس کو اسرائیل کے قبضے سے چھڑانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شام پر فضائی جارحیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت غزہ میں ذلت آمیز شکست کے بعد یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ گولان ہائٹس کا محاذ اس کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ لیکن اسرائیل کے حالیہ حملوں میں شام کا فضائی ڈیفنس سسٹم ابھر کر سامنے آیا ہے اور اب اسرائیل کی ایک اور کمزوری واضح ہو چکی ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

منبع:‌اسلام ٹائمز

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬