رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یمن کی مجاہد تنظیم انصاراللہ نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کرکے پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ آرامکو کی تنصیبات پر حملے نے دنیا میں تیل کی مارکیٹ پر ایسے اثرات مرتب کیے ہیں کہ سب کی نظریں یمن پر مرکوز نظر آتی ہیں۔ امریکہ، سعودی عرب اور اس کے حواریوں نے اس حملے کا الزام اسلامی جمہوریہ ایران پر لگا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن انصاراللہ کے بار بار کے اعتراف نے امریکہ اور ان کے الزامات کو مشکوک بنا دیا۔ آرامکو پر حملے کے حوالے سے کئی تبصرے سامنے آئے، لیکن کویت کی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ایران کی ایک چھینک کے نتیجے میں آنے والے زلزلے کو برداشت نہیں کرسکے، اگر ایران پوری طاقت سے میدان میں آگیا تو سعودی عرب اور ان کے حواری کہاں چھپیں گے۔ انصاراللہ کے چند ڈرون طیاروں نے علاقے اور تیل کی سیاست کو آناً فاناً تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ مجبور ہوگیا کہ اپنے اسٹریٹیجک ذخائر سے تیل کی سپلائی کو جاری رکھے اور سعودی عرب نے انتہائی کسمپرسی کے حالت میں عراق سے بیس ملین بیریل تیل ادھار مانگ لیا ہے۔
دوسری طرف یمن پر سعودی جارحیت اور اس کے نتیجے میں جان بحق ہونے والے ہزاروں یمنیوں کے بارے میں کہیں سے آواز نہیں اٹھی، لیکن آرامکو پر حملے کے فوراً بعد مغربی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کے سربراہوں نے بھی سعودی حکمرانوں کو تعزیتی ٹیلی فون کرنے شروع کر دیئے۔ پاکستان کے وزیراعطم تو آرامکو کی فاتحہ خوانی کے لیے ریاض پہنچ گئے۔ یمن کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا، کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی۔ یمن کے عوام پر حتیٰ تعزیتی مجالس، اسکولوں، اسپتالوں اور بازاروں پر سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے حملے کیے، کسی کے کانوں پر جون تک نہیں رینگی۔ یمن کا چار برسوں سے فضائی، سمندری اور زمینی محاصرہ ہے، لیکن دنیا خاموشی کے چادر اوڑھے سو رہی ہے۔ وبائوں اور بیماریوں سے یمن میں انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے، لیکن مظلوم یمنیوں کے لیے کوئی احتجاج کرنے کو تیار نہیں۔
اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی ادارے یمن کی تکلیف دہ صورتحال کے بارے میں خبردار کرچکے ہیں، لیکن کسی مسلمان حکمران نے سعودی حملوں کو روکنے حتیٰ اس جارحیت کی مذمت تک نہیں کی۔ آج تنگ آمد بجنگ آمد کے نظریئے کے مطابق جب یمنی فورسز نے سعودی تنصیبات پر جوابی حملہ کیا ہے تو دنیا نے چیخنا چلانا شروع کر دیا ہے۔ مغرب اور اسلامی ممالک کے اس غیر انسانی رویئے پر حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جدید دنیا نے ثابت کر دیا ہے کہ یمنیوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں، لیکن آرامکو کی تیل کی تنصیبات نہایت اہم ہیں، کیا اس سے ثابت نہیں ہوگیا کہ انسانی حقوق کا دم بھرنے والوں کے نزدیک "خون پر تیل کو فوقیت حاصل ہے۔" یمنیوں کو خون بہتا رہا دنیا پر موت جیسا سکوت طاری رہا اور جب آرامکو پر حملے کے نتیجے میں تیل جلنا شروع ہوا تو دنیا کے ہر کونے سے اس حملے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔/۹۸۸/ن