رسا نیوز ایجنسی کی ڈان نیوز سے رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا، منی لانڈرنگ اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی سنگین صورت حال کا اجاگر کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کو عالمی فورم بھرپور انداز میں اٹھایا اور بھارت کے اقدامات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جناب صدر! میں اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک نازک موقع ہے، اس صورت حال پر ردعمل ہوگا پھر پاکستان پر الزامات عائد کیے جائیں گے، دو جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک آمنے سامنے آئیں گے جس طرح ہم فروری میں ہم آئے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس سے پہلے کہ ہم اس طرف جائیں اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے، اسی کے لیے 1945 میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، آپ اس کو روکنے کے مجاز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کچھ غلط ہوا تو آپ اچھے کی امید کریں گے لیکن ہم اس سے نمٹنے کی تیاری کریں گے اگر دونوں ممالک کے درمیان روایتی جنگ شروع ہوئی اور کچھ ہوا تو سوچیے کہ ایک ملک جو اپنے ہمسایے سے سات گنا چھوٹا ہو تو اس کے پاس کیا موقع ہے یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں یا آخری سانس تک اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں یہ سوال خود سے پوچھتا ہوں، میرا ایمان ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں اور ہم لڑیں گے، اور جب ایک جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک آخر تک لڑتا ہے تو اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں، اس کے نتائج دنیا پر ہوتے ہیں۔
عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا کہ 'میں خبردار کررہا ہوں، یہ دھمکی نہیں ہے یہ خوف پریشانی ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں یہی بتانے میں یہاں اقوام متحدہ میں ہوں کیونکہ صرف آپ ہیں جو کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت کی ضمانت دے سکتے ہیں جس کے لیے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی موقع ہے عمل کا، پہلا قدم یہ ہے کہ بھارت کرفیو کو ہٹادے جو 52 روز سے نافذ ہے، یہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور خاص کر ان 13 ہزار نوجوانوں کو جنہیں اٹھایا گیا ہے اور ان کے والدین کو ان کی خبر نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی برادری کشمیر کو ہر صورت حق خود ارادیت دلائے۔
صرف 8ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا کرے گی
عمران خان نے کہا کہ بھارت کے پاس اور کوئی بیانیہ نہیں رہا، جیسے ہی وہ کرفیو ہٹائیں گے جو کچھ ہوگا، وہ اس کا الزام پاکستان پر لگائیں گے اور ایک اور پلواما کا خطرہ موجود ہے، بمبار دوبارہ آسکتے ہیں جس سے نیا چکر شروع ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی کو سمجھ ہے کہ 8 کروڑ مسلمان بھارت میں اس وقت کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری 55 روز سے محصور ہیں، اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کو اکسایا جائے گا، میں 180 ملین لوگوں کی بات کررہا ہوں، جب وہ شدت اختیار کریں گے تو پھر پاکستان پر الزام آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'جناب صدر! ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اس چیز کو دیکھ رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں یہ صرف کشمیر میں ہورہا ہے کیونکہ کشمیری مسلمان ہیں، کشمیری ہندووں کے ساتھ ایسا نہیں ہورہا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے یہ ہورہا ہے تو پھر وہ کیا سوچتے ہوں گے'۔
وزیراعظم نے کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں 80 لاکھ کو بھول جائے جب 8 ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا سوچے گی،یورپی کیا سوچیں گے، اگر کسی برادری کے لوگ اس طرح محصور ہوں تو وہ کیا کریں گے کیا انہیں درد نہیں ہوگا'۔
اقوام متحدہ کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا میں بتاتا ہوں، ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی ہتھیار اٹھائے گا، میں مغربی فلموں میں دیکھ چکا ہوں جس میں ایک سمجھدار لڑکے کو انصاف نہیں ملتا ہے اور بندوق اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے اور انصاف کی تلاش شروع کرتا ہے، نیویارک کی مشہور فلم ڈیتھ وش میں ڈاکو ایک لڑکے کی بیوی یا اہل خانہ کو مارتے ہیں اور اس کو انصاف نہیں ملتا اور وہ بندوق اٹھاتا ہے اور ڈاکووں کو مارنے نکلتا ہے پھر پورا سنیما تالیاں بجاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تو آپ کیا سمجھتے ہیں مسلمان اس وقت کیا سوچتے ہیں، اگر کوئی خون ریزی ہوئی تو مسلمان شدت پسند ہوں گے وہ اسلام کی وجہ سے نہیں بلکہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک روہنگیا مسلمان ہیں، میانمار سے تقریباً 10 لاکھ مسلمان باہر ہیں اور وہ شدت پسندی کا شکار ہیں، اس پر عالمی برادری کا کیا جواب تھا تو آپ کیا سجھتے ہیں کہ ایک ارب 30 کروڑ مسلمان کیا سوچتے ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں خود کو مثال بناتا ہوں، میں کشمیر میں ہوں اور مجھے 55 روز سے محصور کیاگیا ہے، میں سنتا ہوں ریپ کے حوالے سے، بھارتی فوج گھروں میں گھس رہی ہے تو کیا میں اس ذلت میں رہنا چاہوں گا، کیا میں اس طرح رہنا چاہوں گا، میں ہتھیار اٹھاؤں گا، آپ لوگوں کو انتہاپسندی کے لیے مجبور کررہے ہیں، جب لوگ امید کھو دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ انسانوں کے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں تو درحقیقت آپ لوگوں کو انتہا پسند بنارہے ہیں۔