تحریر: سید میثم ہمدانی
دشمن شناسی میں ایک اہم سوال یہ پیش آتا ہے کہ دشمن شناسی کا معیار اور ملاک کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے، جس کو صحیح انداز سے درک کرنے اور اس کا صحیح انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کیلئے ہم ایک مثال کے ذریعے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ جب کبھی کوئی شخص مریض ہوتا ہے تو وہ اپنے علاج معالجے کیلئے کسی طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ طبیب اس شخص کی مرض کو تشخیص دیتا ہے اور اس تشخیص کی بنیاد پر اس کا علاج معالجہ شروع کر دیتا ہے۔ اگر اس طبیب کی تشخیص صحیح ہو تو نسخہ میں دی جانے والی ادویات کے بروقت استعمال سے مرض سے نجات حاصل ہو جاتی ہے اور اگر تشخیص صحیح نہ ہو تو جتنی دوائیں بھی استعمال کی جائیں، اصل مرض لاحق رہتا ہے اور اس سے چھٹکارہ نصیب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھے طبیب یا حاذق ڈاکٹر سے مرض کی تشخیص کروائی جائے اور احتیاط کا ضابطہ یہ ہے کہ چند ایک اطباء سے اس بارے میں مشورہ کیا جانا چاہیئے، تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ممکن ہو۔
دشمن شناسی کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی اہم موضوع ہے۔ اگر کوئی قوم و ملت اپنے صحیح دشمن کی صحیح تشخیص نہ دے سکے تو شکست ہی اس کا مقدر قرار پاتی ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس اتنے اہم موضوع کی تشخیص کون دے گا؟ ایسا کون سا فرد ہے، جس کی تشخیص پر اعتماد کیا جائے؟ یعنی درحقیقت دشمن شناسی میں رہبریت اور امامت کی ذمہ داری کس کے پاس ہے۔؟ ملت اسلامیہ کے عقیدہ کے مطابق خداوند تبارک و تعالیٰ نے اپنے احکامات اور روشن ہدایات قرآن مجید کی شکل میں پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمائے، جن کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کیلئے بیان فرمایا اور آج وہ قرآن کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انہی تعلیمات کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اور اپنی عملی حکمرانی میں مسلمانوں تک منتقل کیا اور مسلمانوں کی ہدایت کی۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے آنکھ بند کرنے کے بعد یہ ذمہ داری آئمہ اطہار علیہم السلام کے ذریعے انجام پاتی رہی اور احادیث کے ذریعے ایسے اصول و قوانین بیان کر دیئے گئے، جو رہتی دنیا تک انسانوں کی ہدایت کیلئے مشعل راہ ہیں۔ انہیں تعلیمات کی روشنی میں مختلف علوم کے ماہرین اپنی اپنی آراء کو پیش کرتے ہیں، فقیہ انہی ادلہ کی روشنی میں فقہی احکام بیان کرتے ہیں، مفسرین انہی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں، حکماء ان تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے حکمت و کلام کی عقلی و عقیدتی مسائل کی گتھیوں کو سلجھاتے ہیں۔ پس یہاں اس ضرورت کا احساس کیا جاتا ہے کہ ہمیں ایسے راہبر و راہنماء کی ضرورت ہے، جو انہی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کو اس کے حقیقی دشمن سے آگاہ کرے اور معاشرے کی دشمن شناسی میں امام کا کردار ادا کرے۔ یہی وہ فرد اور مقام ہے، جس کی دشمن شناسی کے باب میں دی جانے والی تشخیص پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
ولایت فقیہ کا لغوی معنی:
ولایت فقیہ عربی زبان کے دو الفاظ "ولایت" اور "فقیہ" کا مرکب ہے۔ عربی زبان میں ولایت کا مادہ "و ل ی" ہے، جس کے متعدد معنی بیان کئے گئے ہیں۔ عربی لغت دانوں نے اس مادے کے معانی میں "سرپرستی، دوستی، پیروی، کسی چیز یا عہدہ کا ذمہ دار ہونا،۔۔۔۔" کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ولایت کا ایک معنا "کسی ایک کا دوسرے کے بعد بغیر کسی فاصلے کے آنا" کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی لغت میں ولایت کو "سرپرستی" کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں فقہ "جاننے، درک کرنے، کسی پوشیدہ شے سے آشنا ہونے، حاضر معلومات سے غائب معلومات کے پیچھے جانے" کو کہا جاتا ہے۔ فقہ کا مادہ "ف ق ہ" ہے، جس کا لغوی معنی "کسی شے کے بارے میں عمیق انداز میں جاننے" کا ہے۔ عمومی طور پر یہ لفظ "کسی شے کو درک کرنے اور علم و فہم کے غلبہ" کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
ولایت فقیہ کا اصطلاحی معنی:
ولایت فقیہ سیاسی اور حکومتی نظریہ کا عنوان ہے، جس کو ہمارے زمانے میں امام خمینی علیہ الرحمہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی سرزمین پر رائج کیا۔ اگرچہ یہ نظریہ معاصر دور میں ایک خاص سرزمین پر نافذ ہوا، لیکن ہمیشہ سے گذشتہ فقہا اور اسلامی فقہ یعنی شریعت اسلامیہ میں اس حوالے سے ابحاث موجود رہی ہیں اور مختلف دانشور حضرات نے اس حوالے سے مختلف انداز میں بحث کی ہے۔ درحقیقت ولایت فقیہ اسلامی نظام کے رواج اور نفاذ کیلئے تشخیص دیئے جانے والے "حاکم شرعی" کا عنوان ہے۔ ایسا شرعی حاکم جو معاشرے کو اسلامی اصول و قواعد کے مطابق مدیریت کرے۔ نظام ولایت فقیہ کے ایک جہت سے دو دائرہ کار ہیں۔ ایک دائرہ کار اس کی حکومت کے زیر اثر موجود سرزمین پر حکومتی قواعد اور قوانین کا نفاذ اور دوسرا دائرہ کار امت اسلامی کی فکری راہبری۔
عین ممکن ہے کہ ولی فقیہ ظاہری اعتبار سے ایک خاص سرزمین پر اس سرزمین پر لاگو نظام، حکومت یا آئین کے اعتبار سے کسی "اجرائی" ذمہ داری کا حامل نہ ہو، یعنی بالفاظ دیگر "بسیط الید" نہ ہو، لیکن اس کے باوجود اس سرزمین پر بسنے والے مسلمانوں اور انسانوں کی نظریاتی اور اسلامی فکری ہدایت "ولی فقیہ" کی ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ بھی اسی عنوان میں مضمر ہے، جہاں ولی فقیہ کو "ولی" ہونے کےحوالے کسی سرزمین پر ظاہری اعتبار سے مکمل حکمرانی (ولایت مطلقہ) حاصل ہے، وہیں "فقیہ" ہونے کے اعتبار سے امت اسلامی کی نظریاتی راہبری اور ہدایت کا درجہ بھی حاصل ہے۔
ولایت فقیہ کا اثبات:
دین ایک اعتبار سے "اصول دین، فروع دین اور اخلاق" کے عنوان سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ولایت فقیہ کی بعنوان تشریع، فقہ میں جبکہ عقیدتی اعتبار سے اصول دین میں بحث کی جاتی ہے۔ گذشتہ ادوار میں بھی ولایت فقیہ کی بحث کو مختلف علماء کی جانب سے بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں صدی ہجری کے معروف عالم دین شیخ مفید اپنی کتاب مقنعہ میں ولایت فقیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "حدود الہیٰ کے اجراء کا مسئلہ سلطان اور حاکم اسلامی سے منسلک ہے کہ جو خداوند کی جانب سے نصب ہوا ہو۔ یہ (حاکم) آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آئمہ ہدایت ہیں اور (ایسے اشخاص) جو آئمہ کی جانب سے امیر یا حاکم منصوب ہوئے ہیں۔ آئمہ اطہار علیہم السلام نے بھی اس مطلب کو اپنے پیروان اور فقہا کے سپرد کیا ہے۔(المقنعہ، صفہ 810)
ملا احمد نراقی نے اپنی کتاب عوائد الایام میں ولایت فقیہ کی بحث کو مفصل انداز میں بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: اعلم أنّ الولاية من جانب اللّه سبحانه على عباده ثابتة لرسوله و أوصيائه المعصومين عليهم السلام،و هم سلاطين الأنام،و هم الملوك و الولاة و الحكّام،و بيدهم أزمّة الأمور،و سائر الناس رعاياهم و المولّى عليهم۔ ترجمہ: جان لو خدا کی جانب سے اپنے بندوں پر ولایت، خدا کے رسول اور آئمہ معصومین علیہم السلام کیلئے مخصوص ہے، یہی لوگوں کے سلطان، ملک، ولی اور حاکم ہیں۔ لوگوں کے تمام امور ان کے ہاتھ ہیں اور تمام لوگ ان کی رعایا اور ان کی ولایت کے اندر ہے۔ و أما غير الرسول و أوصيائه،فلا شكّ أنّ الأصل عدم ثبوت ولاية أحد على أحد إلاّ من ولاّه اللّه سبحانه،أو رسوله،أو أحد أوصيائه،على أحد في أمر.و حينئذ فيكون هو وليا على من ولاّه فيما ولاّه فيه۔ ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ اور ان کے اوصیاء کے علاوہ دوسروں میں سے کسی کیلئے کسی پر کوئی ولایت ثابت نہیں ہے، مگر وہ کہ جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول اور ان کے اوصیاء میں سے کوئی اس امر میں ولایت عطا کرے۔ پس وہ ولی ہے، جس چیز پر اس کو ولایت دی گئی ہے۔
اس بات کو مفصل انداز میں بیان کرتے ہوئے ملا احمد نراقی نے غیبت کے زمانے میں فقیہ کے ولی ہونے پر متعدد عقلی و نقلی دلائل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "و الدلیل علی الاول بعد ظاهر الاجماع حیث نص به کثیر من الاصحاب بحیث یظهر منهم کونه من المسلمات - ماصرحت به الاخبار." ترجمہ: جیسا کہ اجماع کے بعد ظاہر ہے اس مسئلہ پر کثیر احادیث موجود ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ (مسئلہ ولایت فقیہ) مسلمات میں سے۔ یہاں ملا احمد نراقی سے انیس روایات بیان کی ہیں اور ان روایات کو بیان کرنے کے بعد عقلی ادلہ کے ذریعے ولایت فقیہ کا اثبات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "و اذا اردت توضیح ذلک فانظر الی انه لو کان حاکم او سلطان فی ناحیة و اراد المسافرة الی ناحیة اخری، و قال فی حق شخص بعض ما ذکر، فضلا عن جمیعه (ای ما ذکر فی شأن الفقیه الاخبار السابقة) فقال: فلان خلیفتی و بمنزلتی، ومثلی و امینی، و الکافل لرعیتی و الحاکم من جانبی و حجتی علیکم و المرجع فی جمیع الحوادث لکم و علی یده مجاری امورکم و احکامکم، فهل یبقی لاحد شک فی انه له فعل کل ما کان للسلطان فی امور رعیة تلک الناحیة الا مااستثناه، و ما اظن احدا یبقی له ریب فی ذلک و لا شک و لا شبهة" (عوائد الایام، صفحہ 530، عائدہ 53)
ترجمہ: ان احادیث کی روشنی میں اس بات کی طرف توجہ کریں کہ اگر کوئی کسی علاقہ کا حاکم یا سلطان ہو اور وہ سفر کا ارادہ کرلے اور کسی فرد کے بارے میں کہے کہ (جیسا کہ گذشتہ روایات میں فقیہ کیلئے کہا گیا): فلان شخص میرا خلیفہ ہے اور میری جگہ پر ہے، میری مانند ہے اور میرا امین ہے، میری جانب سے میری رعیت پر حاکم ہے اور میری جانب سے تم پر حجت ہے اور تمام امور میں اس کی جانب رجوع کیا جائے اور اس کے پاس تمام امور کی ذمہ داری ہے اور تمہارے تمام امور اور احکام اس کی جانب ہیں۔ پس کیا اس کے بعد بھی اس بات میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ اس (ولی فقیہ) کیلئے اسی حاکم اور سلطان کی مانند اپنی رعیت اور عوام پر مکمل حق حکمرانی ہے؟ سوائے اس کے کسی چیز کی استثنا کی گئی ہو۔ میرے خیال میں کسی کیلئے اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔/۹۸۸/ن