تحریر: حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی، قم المقدسہ
انسان اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں کا محتاج ہوتا ہے، پیدا ہونے سے لیکے مرتے دم تک، بس فرق اتنا ہے کہ ہر زمانہ کے حالات اور ضرورت کے مطابق اس کی ضرورتیں ہوتی ہیں، انسان اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک راہنما اور قائد و لیڈر کا محتاج ہوتا ہے، اور اس کی زندگی کے آغاز اور ابتدا سے ہی اس کے ماں باپ اس کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں، اچھے برے اور نیک و بد کو اسے ہمیشہ سمجھاتے اور بتاتے رہتے ہیں جب تک چھوٹا رہتا ہے تب تک خود سمجھاتے رہتے ہیں اور جب کچھ بڑا ہوجاتا ہے تو اسکول اور مدرسہ میں کسی اچھے استاد کے حوالہ کردیتے ہیں تاکہ وہ اس کی ہر لحاظ سے اچھی اور بہتر راہنمائی کرسکے، جیسے جیسے انسان بڑا اور سمجھدار ہوتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس کو راہنمائی کی اور بھی زیادہ ضرورت پڑتی رہتی ہے، اور زندگی کے ہر مرحلہ کی راہنمائی بھی الگ الگ ہوتی ہے پڑھنے لکھنے، تعلیم و تربیت، دینی، سماجی، سیاسی، انفرادی، اجتماعی، ہر طرح کی راہنمائی کی اس کو ضرورت پڑتی رہتی ہے۔
راہنما اور قائد بھی الگ الگ اور ہر طرح اور مختلف صلاحیت کے ہوتے ہیں، اور ایک جیسے نہیں ہوتے، کوئی کسی اعتبار سے بہتر ہوتا ہے تو کوئی کسی اور اعتبار سے، دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جو ہر انسان کی ہر مرحلہ میں اور ہر طرح سے راہنمائی کر سکیں، اس لئے کہ ہر انسان کے اندر ہر طرح کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہیں، کوئی نہ کوئی نقص اور کمی بہر حال رہ جاتی ہے، اور ویسے بھی انسان کامل صرف معصومین علیہم السلام ہیں، اور معصومین علیہم السلام ہی ہر طرح کی اور ہر اعتبار سے صحیح اور اچھے طریقہ سے راہ نمائی کر سکتے ہیں، ان کے علاوہ دنیا کے جتنے بھی راہنما ہیں ان کے یہاں غلطی اور خطا کا امکان پایا جاتا ہے، دنیا کے سارے راہنما اور ساری قیادت ایک طرف اور خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم راہنما ایک طرف، جہاں انسان کو زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر موڑ پہ ایک اچھے راہنما کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ایک ایسا راہنما ہے جو سارے راہنما سے بہتر ہے، اور وہ راہنما توفیق ہے، توفیق سے بڑا کوئی راہنما اور قائد نہیں ہے اس لئے کہ امیر کائنات امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ:
"لاقَائِدَ کَالتَّوْفِیقِ"*(نہج البلاغہ حکمت 113)
"توفیق سے بڑھ کے کوئی قائد اور راہنما نہیں ہے"
دوسری جگہ پہ آپ نے فرمایا:
"اَجَلُّ ما يَنْزِلُ مِنَ السَّماءِ التَّوْفيقُ، وَ اَجَلُّ ما يَصْعَدُ مِنَ الاَْرْضِ الاِْخْلاصُ"*(شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید ج2 ص 291 ناشر- مکتبة آیة اللہ المرعشی النجفی قم)
"اہم ترین چیز جو آسمان سے زمین پہ آتی ہے وہ توفیق ہے اور اہم ترین چیز جو زمین سے آسمان کی طرف جاتی ہے وہ اخلاص ہے"*
یعنی جب نیچے سے اخلاص اور خلوص اوپر جاتا ہے تو پھر توفیق اوپر سے نیچے آتی ہے،
ہمارے یہاں قرآن اور حدیث میں عقل کی کتنی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
"قلیل التوفیق خیرٌ من کثیر العقل"*(نہج الفصاحة ص 601 ناشر- دنیای دانش تہران)
"تھوڑی سی توفیق بہت زیادہ عقل سے بہتر ہے"*
غرر الحکم میں مولائے کائنات نے توفیق سے کے سلسلہ سے کئی حدیثیں بیان فرمائی ہیں آپ فرماتے ہیں:
*"اَلتَّوْفِيقُ مُمِدُّ اَلْعَقْل"* (غررالحکم ودررالکلم ص 44 ناشر- دارالکتاب الاسلامی قم)
*"توفیق عقل کی مددگار ہے"*
*"اَلتَّوْفِيقُ رَحْمَة"* (غرر۔۔۔۔۔۔ ص 23ناشر۔۔۔۔۔۔۔۔)
*"توفیق رحمت ہے"*
*"اَلتَّوْفِيقُ قَائِدُ اَلصَّلاَح"* (غرر۔۔۔۔۔۔ص28 ناشر۔۔۔۔۔۔۔
*"توفیق نیکیوں کی راہنما ہے"*
*"لاَ مَعُونَةَ كَالتَّوْفِيق"*(غرر۔۔۔۔۔۔ص768 ناشر۔۔۔۔۔۔
*"توفیق جیسی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہے"*
*"اَلتَّوْفِيقُ عِنَايَةُ اَلرَّحْمَن"*(غرر۔۔۔۔۔ص 53 ناشر۔۔۔۔۔)
*"توفیق خدا کی عنایت اور لطف ہے"*
*"اَلتَّوْفِيقُ أَوَّلُ اَلنِّعْمَة*(غرر۔۔۔۔۔ص37 ناشر۔۔۔۔۔)
*"توفیق نعمت کی ابتدا ہے"*
*لا يَنفَعُ العلم بغَيرِ تَوفيقٍ*(غرر۔۔۔۔ص778 ناشر۔۔۔۔۔)
*"توفیق کے بغیر علم فائدہ نہیں پہنچائے گا"*
*لا نِعمَةَ أفضَلُ مِن التَّوفيقِ*(شرح آقا جمال خوانساری بر غرر الحکم۔۔۔ ج6 ص381 ناشر- دانشاگاہ تھران)
*"توفیق سے بڑھ کے کوئی نعمت نہیں ہے"*
اب ان حدیثوں کو پڑھنے کے بعد توفیق کی اہمیت، عظمت اور ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ توفیق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے،
ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کا گلہ و شکوہ اور رونا روتے رہتے ہیں کہ ہماری کسی نے راہنمائی نہیں کی کسی نے مدد نہیں کی ورنہ ہم بھی کچھ اور ہوتے، کسی مقام پہ ہوتے، ترقی کرتے، اچھے سے پڑھتے لکھتے، لیکن کاش کہ ہمیں خدا سے توفیق مانگنے کی توفیق ہو جاتی اس لئے کہ توفیق طلب کرنے کے لئے بھی توفیق کی ضرورت ہوتی ہے، ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جن حضرات کے شامل حال توفیق الہی ہوگئی وہ کیا سے کیا ہوگئے، ذرہ سے آفتاب ہوگئے، اور توفیق ایسی چیز ہے جسے پیسوں سے اور طاقت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ نیک اعمال کے ذریعہ سے حاصل کیا جاتا ہے، لہذا اگر کسی کے پاس پیسے اور طاقت نہ ہوں تب بھی توفیق اس کے شامل حال ہوجائے گی، اگر توفیق شامل حال ہوگئی تو پھر ہر کام آسانی سے بھی ہوگا اور ہر چیز میں برکت بھی ہوگی، وقت میں برکت، علم میں برکت، عمر میں برکت اور بھی ساری چیزوں میں برکت ہی برکت رہے گی، جیسا کہ ہم اپنے علماء کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح سے اپنی زندگی میں اتنا زیادہ کام کردیا جسے آج دیکھ کے اور سوچ کے انسان مبہوت ہو جاتا ہے اور حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ انھوں نے اس زمانہ میں جب نہ کہ اتنی ترقی تھی، نہ وسائل اور سہولتیں تھیں نہ بہت سی ضروت کی چیزیں تھیں تب بھی انھوں نے اتنا زیادہ کام کر دیا، اگر ہم دیکھیں اور غور کریں تو ہمیں توفیق اور برکت کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہیں آئے گی کہ خدا نے ان کو کتنی زیادہ توفیق عطا کی تھی کہ آج سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کچھ نہیں کر پاتے، آج تقریبا ساری ضرورت کی اور پڑھنے لکھنے کی چیزیں موجود ہیں، سارے وسائل، ساری سہولتیں لیکن ہمیں کام کرنے کی توفیق نہیں ہو پاتی، اور اگر کسی کے توفیق شامل حال نہیں ہوئی تو وہ کوئی بھی نیک کام انجام نہیں دے سکتا ہے، نہ عبادت کر سکتا ہے، نہ درس پڑھ سکتا ہے، نہ دوسروں کی مدد اور کار خیر کر سکتا ہے، نہ وقت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی اور بھی دوسری چیزوں سے اس لئے کہ مولائے کائنات نے فرمایا کہ: *توفیق ہر نیکیوں کی راہنما ہے*،
تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیسے اور کن چیزوں سے توفیق حاصل ہوتی ہے وہ چیزیں جو توفیق کا سبب بنتی ہیں جن سے توفیق نصیب ہوتی ہے ان میں سے کچھ چیزیں یہاں پہ ذکر کر رہے ہیں-
1- *تقوا اور خوف خدا*
خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: *"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ"*(اعراف 96)
*"اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے"*
2- *دینداری*
مولائے کائنات نے فرمایا:
*"كَمَا أَنَّ اَلظِّلَّ وَ اَلْجِسْمَ لاَ يَفْتَرِقَانِ كَذَلِكَ اَلتَّوْفِيقُ وَ اَلدِّينُ لاَ يَفْتَرِقَانِ"*(تصنیف غررالحکم ودررالکلم ص203 ناشر- دفتر تبلیغات قم)
*"جس طریقہ سے جسم اور سایہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اسی طرح دین اور توفیق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے"*
3- *دین خدا کی مدد کرنا*
خدا وند عالم نے فرمایا:
*"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ"*(محمد7)
*"ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا*"
4- *عبادت میں استقامت اور پایداری*
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
*"دَوَامُ العِبَادَةِ بُرهَانَ الظَفَرِ بِالسَّعَادَةِ"*(غررالحکم ودررالکلم ص 819 ناشر- دفتر تبلیغات قم)
*"ہمیشگی اور پایداری کی عبادت حتما نیکی اور کامیابی کا سبب بنتی ہے"*
5- *دنیا کے دام(جال) سے کنارہ کشی*
مولائے کائنات نے دنیا کو خطاب کر کے فرمایا:
*"وَمَنِ ازوَرَّ عَن حَبَائِلِکِ وُفِّقَ"*(نہج البلاغہ نامہ 45)
*"جس نے تیرے پھندوں سے کنارہ کشی اختیار کی اس کو توفیق اور کامیابی حاصل ہو گئی"*
6- *سعی و کوشش*
خدا وند عالم نے فرمایا:
*"وَ الَّذِینَ جَهَدُوا فِینَا لَنهْدِیَنهُمْ سبُلَنَا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ"*(عنکبوت69)
*"جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اللہ حسن عمل والوں کے ساتھ ہے"*
7- *نیک اور پاک نیت*
مولائے کائنات نے فرمایا:
*"مَن حَسُنَت نِيَّتُهُ أمَدَّهُ التَّوفيقُ"*(غررالحکم و ودررالکلم ص767 ناشر- دارالکتاب الاسلامی قم)
*"جس کی نیت اچھی ہوگی توفیق اس کی مدد کرے گی یعنی اس کے شامل حال ہو جائے گی"*
8- *نصیحت کو قبول کرنا*
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
*"مِن أکبَرِ التَّوفیقِ الأخذُ بالنَّصیحَةِ"*(غررالحکم۔۔۔۔ ص 674 ناشر۔۔۔۔۔)
*"سب سے بڑی توفیق نصیحت کو قبول کرنا ہے"*
9- *دعا*
مولائے کائنات نے فرمایا:
*"علیک بالاستعانه بالهک و الرغبة الیه فی توفیقک"*(عیون الحکم والمواعظ ص 335 ناشر- دارالحدیث قم)
*"تم خدا سے مدد طلب کرو اور توفیق بھی اسی سے طلب کرو"*
اس کے علاوہ اور بھی چیزیں قرآن اور حدیث میں توفیق کو طلب کرنے کے لئے بیان ہوئی ہیں مثلا توبہ اور استغفار وغیرہ،
قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ توفیق کو طلب کرنے کے لئے دعا کرنا چاہئیے اس لئے کہ بغیر توفیق کے ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں،
لہذا ہمیں معصومین علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستہ پہ چلنا چاہیئے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پہ عمل کرنا چاہئیے تاکہ توفیق خدا ہمارے بھی شامل حال ہو سکے اور جب توفیق شامل حال ہو جائے گی تو پھر ہماری زندگی نورانی اور بابرکت ہوجائے گی اور جب ایسا ہو جائے گا تو ہم خود بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے اور دوسروں کے لئے بھی مفید ہونگے اور زندگی کا ہدف بھی یہی ہے کہ انسان خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے، زندگی تو ہر حال میں گزر جائے گی چاہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نہ اٹھایا جائے لیکن اتنا تو ضرور یاد رہے کہ کل کو جب سوال کیا جائے اور پوچھا جائے تو کچھ تو جواب دینے کے لئے ہو اور صرف اور صرف شرمندہ نہ ہونا پڑے اس لئے کہ دوبارہ پھر موقع نہیں دیا جائے گا اور ہم صرف حسرت و یاس سے ہاتھ ملتے رہیں گے-
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائے، اور شعبان المعظم کے بچے ہوئے بقیہ دنوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی اور ماہ مبارک رمضان کی آمادگی کی توفیق عنایت فرمائے ساتھ ہی ساتھ کرونا جیسی مہلک اور منحوس بیماری سے ہمیں جلد سے جلد نجات عطا فرمائے- /۹۸۸/ن