رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پینتیس نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی باتوں اور حرکات و سکنات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مسائل کو سمجھنے میں انتہائی درجے کی کمزوری کا شکار ہیں۔
ان ماہرین کے مطابق اقتدار میں رہتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ میں حقائق کی تحریف کا عمل، جو ان کے غلط تصورات سے ہم آہنگ ہو مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
دوسری جانب نفسیات کے ڈاکٹر، جو عام طور سے ایسی سرکاری شخصیات کی صحت کے بارے میں کہ جنکا انہوں نے معائنہ نہ کیا ہو، رائے دینے سے گریز کرتے ہیں تاہم ان ڈاکٹروں نے بھی روزنامہ نیویارک ٹائمز کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے پر خاموش نہ رہیں کیونکہ ٹرمپ نے بہت سے زیادہ مشکلات پیدا کردی ہیں۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کی تقاریر اور اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کی مخالفت ہرگز برداشت نہیں کر سکتے اور اسی وجہ سے وہ انتہائی غصے کی حالت میں ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی بعض نفسیات کے ماہرین، ڈاکٹروں نیز دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بعض سینیٹروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نفسیاتی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، قومی سلامتی کے مشیر کے استعفے کی وجوہات سے متعلق سامنے والی خبروں پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
اپنے ایک ٹوئیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے استعفے سے متعلق انکشافات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی انتہائی خفیہ معلومات غیر قانونی طریقے سے لیک ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بھی مائیکل فلن کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیتھ کلوگ کو ان کی جگہ قومی سلامتی کا عبوری مشیر مقرر کر دیا گیا ہے۔
مائیکل فلن نے اپنے استعفے میں اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ انہوں نے بادل ناخواستہ نائب صدر مائیک پینس کو روس کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے ناقص معلومات فراہم کی تھیں۔
اس سے قبل مائیکل فلن اور روسی عہدیداروں کے درمیان رابطوں کی خبریں بھی منظرعام پر آچکی ہیں اور امریکی وزارت انصاف نے اس بارے میں حکومت کو خبردار بھی کیا تھا۔
عبوری اٹارنی جنرل سلی یٹس نے بھی جنوری کے اواخر میں وائٹ ہاوس کو بتایا تھا کہ مائیکل فلن نے واشنگٹن میں روسی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں صحیح معلومات فراہم نہیں کیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے معاون مائک پینس نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔/۹۸۸/ ن۹۴۰