21 April 2017 - 22:47
News ID: 427648
فونت
مولانا ارشد مدنی:
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو مولانا ارشد مدنی نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امن پسند اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھنے والے ملک کے عوام کا آئین و قانون کے تئیں اعتماد مزید مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔
ارشد مدنی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے ذریعے بابری مسجد انہدام کیس کے تعلق سے لئے گئے، اہم فیصلے کو ملک کی جمہوریت، قانون کی بالادستی اور عوام کے آئین و قانون میں اعتماد کے تحفظ کی سمت ایک انتہائی مثبت بلکہ تاریخی قدم قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ بابری مسجد سے متعلق لکھنؤ اور رائے بریلی دونوں جگہ جاری مقدمے کو ایک جگہ کر کے اب لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں چلایا جائے گا، سماعت روزانہ ہوگی، کسی بھی دن سماعت ملتوی نہیں ہوگی، سماعت کے دوران مجسٹریٹ کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا، عدالت میں سماعت کے دوران سی بی آئی کی جانب سے روزانہ کم سے کم ایک گواہ ضرور موجود رہے گا اور عدالت کو دوسال کے اندر فیصلہ سنانا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کی سازش میں ملوث ہونے کے معاملے میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بارہ ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہدایت بھی دی ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو مولانا ارشد مدنی نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امن پسند اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھنے والے ملک کے عوام کا آئین و قانون کے تئیں اعتماد مزید مضبوط اور مستحکم ہوا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جب بھی کسی ملک میں کوئی پارٹی یا شخصیت برسر اقتدار آتی ہے تو وہ ملک کو اپنی خواہشات و مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسے میں آئین و قانون کا تحفظ کرنے والی ایجنسیوں بالخصوص عدلیہ کا یہ اہم فرض بن جاتا ہے کہ وہ برسر اقتدار جماعت یا فرد کو ایسا کوئی کام نہ کرنے دے جو ملک کے آئین، قانون اور روایات کی خلاف ورزی کرنے والا ہو۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا بابری مسجد سے متعلق فیصلہ بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے۔ ہم اس کی تائید و حمایت کرتے ہیں بلکہ یہ ہمارا مطالبہ تھا کہ بابری مسجد مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر مسلسل سماعت کرائی جائے تاکہ اس کا جلد سے جلد فیصلہ آسکے، کیونکہ ’’بابری مسجد، رام جنم بھومی ایشو‘‘ ایک انتہائی نازک اور حساس معاملہ ہے کہ جس نے کم و بیش چار دہائیوں سے ملک کی سیاست اور سماج دونوں کو کافی اثر انداز کیا ہے اور یہ آج بھی ملک میں اکثریت اور اقلیتی فرقہ کے درمیان کشیدگی اور ٹکراؤ کا سبب بنا ہوا ہے۔/۹۸۸/ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬