رسا ںیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نو فروری کی رات فضائیہ کے جوانوں اورشاہی گارڈ کے اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئی تھیں جو د س فروری کو زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ دس فروری انیس سو اناسی کو دوشان تپہ چھاونی سے ایمبولینس کے ذریعے نکلنے میں کامیاب ہونے والے ایک کیڈٹ نے چھاونی میں شدید جھڑپوں کی خبرعوام کو پہنچائی۔ یہ فوجی کیڈٹ اپنے ساتھ متعدد ہتھیاربھی چھاونی سے لیکر آیا تھا جو اس نے لوگوں میں تقسیم کردیئے اوراس طرح پہلی بارعوام کے ہاتھوں میں ہتھیاردکھائی دیئے۔
تہران کے پولیس کمانڈر نے اعلان کیا کہ شہر میں کرفیو کے نفاذ میں گیارہ فروری کی دو پہر بارہ بجے تک توسیع کردی گئی ہے۔ امام خمینی رح نے شاہی حکومت کے اعلان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ سرکاری اعلامیہ غیرشرعی ہے اور عوام کسی بھی صورت میں کرفیو کی پابندی نہ کریں۔ اس کے بعد شہر کے کئی تھانے عوام کے ہاتھوں سقوط کرچکے تھے۔ تہران کے پولیس کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل رحیمی نے اپنے زیر کمان دستوں کوحکم دیا کہ وہ آیت اللہ طالقانی اور مہدی بازرگان سمیت تمام انقلابی رہنماؤں کو فی الفورگرفتاراورہوائی جہاز کے ذریعے ملک کے کسی جزیرے میں منتقل کردیں۔
اسی دوران عوام نے، فرح آباد میں، فضائیہ کے مقابلے کے لیے جانے والے کئی ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں کو ناکارہ بنادیا۔ فضائیہ کے جوانوں اور شاہی گارڈ کے درمیان گزشتہ رات شروع ہونے والی جھڑپیں دس فروری کی دوپہر تک جاری رہیں۔ صبح دس بجے کے قریب فضائیہ کے اسلحہ ڈپو کے دروازے عوام کے لیے کھل گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں پلے کارڈ اور ہاتھ سے لکھے ہوئے پرچے شہر بھر میں پھیل گئے جن پر لکھا تھا کہ فوجی خدمت کا سرٹیفیکٹ رکھنے والے لوگ اسلحہ حاصل کرنے کے لیے فضائیہ کی چھاونی پہنچ جائیں۔ قزوین سے فوج کابکتر بند بریگیڈ، کرفیو کے نفاذ کو سخت بنانے کے لیے شہر میں داخل ہوا لیکن سپہ ہائی وے پرعوام نے اس کا راستہ روک دیا۔ تہران کے نواحی علاقوں کے لوگوں نے شہر میں داخلے کے تمام راستے روکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیئے تھے تاکہ فوجی کمک شہر کے اندرنہ پہنچنے دی جائے۔ اخبارات ایک دن میں دو دو، تین تین ضمیمے شائع کر رہے تھے ، جو ہر شخص کے ہاتھ دکھائی دیتے تھے۔
امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر برژینسکی نے، رات گئے، امریکی وزیر جنگ جنرل براؤن، اور سی آئی اے چیف جنرل ٹرنر کے سامنے ایران میں بغاوت کا منصوبہ پیش کیا اور ان کی منظوری حاصل کی۔ اس کے بعد دو روز پہلے ہی ایران سے بھاگنے والے جنرل ہائزر سے ملاقات کی تا کہ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے فوج کی آمادگی کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین تہران کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے فوج کی جانب سے کسی بھی طرح کے اقدام کا امکان چھین لیا۔ ایران کے اکثر شہروں میں عوام اور فوج کے درمیان بھرپور جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ اسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے بھرے پڑے تھے، نیشنل ڈاکٹرز آرگنائیزیشن کے مطابق رات بارہ بجے تک تہران میں ایک سو چھبیس افراد شہید اور چھے سو چونتیس زخمی ہوئے تھے۔ اگلی صبح طلوع ہونے سے پہلے، بحریہ کے جوان بھی فضائیہ کے جوانوں سے آملے تھے جبکہ بری فوج کے بہت تھوڑے سے سپاہی شاہی حکومت کی وفاداری پراڑے ہوئے تھے لیکن ان کی طاقت مسلسل گھٹتی جارہی تھی کیونکہ فوج کے اکثر جوان عوام کی صفوں میں شامل ہوچکے تھے۔
شاہی حکومت کے آخری وزیراعظم بختیار نے کیھان انگلش ایڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طریقے سے اور آئین ساز اسمبلی کے ذریعے شاہی نظام حکومت کو جمہوریت میں تبدیل کرنے کا امکان موجود ہے۔ شاہی حکومت کے آخری وزیراعظم بختیار نے، جس نے گزشتہ روز استعفی دینے سے انکار کردیا تھا، دس فروری کو سینیٹ کے اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ انقلابی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰