تحریر: مولانا سید انصر حسین
روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے مدینہ ہجر ت فرمانے کے ڈیڑھ سال بعد مسلمانوں پررمضان کے روزے فرض کیے گئے ، جیسا کہ قران کریم میں ارشاد ہوا:
یٰاَیُّھَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے (دوسری امتوں کے) لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، توقع ہے تم پرہیز گار بن جاؤ ۔ ‘‘
روزہ عربی میں ’صوم‘ کہلاتا ہے۔ ’صوم‘ کے لفظی معنی ہیں: کسی چیز سے رک جانا اور اسے چھوڑ دینا۔ شریعت کی اصطلاح میں ’صوم‘ سے مراد یہ ہے کہ آدمی صبح صادق (اذان فجر سے پہلے سپیدئ سحر) سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی ضرورت پوری کرنے سے باز رہے۔ قرآن مجید میں رمضان کے عظیم مہینے کی فضیلت کے تین وجوہ بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ.(البقرہ۲: ۱۸۵)
’’رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن پاک بنی نوع انسان کی ہدایت کی خاطر، راہ حق دکھانے والی واضح تعلیمات اور حق و باطل کا فرق کھولنے والی کتاب بنا کر نازل کیا گیا۔‘‘
قرآن مجید اس سرزمین پر ہدایت اور روشنی کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ جو اس سے محروم ہے، وہ یقیناً ہدایت اور خیر سے محروم ہے۔
۲۔ اسی مہینے میں برکتوں والی ’’لیلۃ القدر‘‘ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ.(القدر۹۷: ۱۔۳)
/۹۸۸/ ن
’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔ تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
چونکہ قرآن حکیم ماہ رمضان میں اور شب قدر میں نازل ہوا،اس سے ثابت ہوا کہ شب قدر رمضان ہی میں آتی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘ (بخاری، رقم ۲۰۲۱۔ مسلم، رقم ۲۷۳۳)۔
۳۔ ﷲ نے اس پورے مہینے کے روزے فرض کر کے اسے اپنی اس اہم عبادت کے لیے خاص فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے:
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ.(البقرہ۲:۱۸۵)
’’سو تم میں سے جویہ مہینا پائے، اسے لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘
رمضان کی انھی خوبیوں کی وجہ سے آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے ’’مبارک مہینا‘‘ قرار دیا (نسائی، رقم ۲۱۰۸۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۷۹۵۵)۔
رمضان کی بے شمار برکتیں ہیں:
’’ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک دروازہ بھی بند نہیں رہتا ۔ (ﷲ کی طرف سے) منادی پکارتا ہے: اے خیر کے طالب، آگے بڑھ۔ اے برائی کے جویا، رک۔(تب) ﷲ کی طرف سے بہت سوں کو دوزخ سے رہائی بخش دی جاتی ہے۔ ایسا( رمضان کی) ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی، رقم ۶۸۲۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۵۹۸)
’’یہ وہ مہینا ہے جس میں مومن کی روزی میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔‘‘(شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۶۰۸)
’’جو رمضان میں ایمان کے ساتھ ،ثواب کی نیت سے روزہ رکھتا ہے، اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جولیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کے ارادے سے نوافل پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم ۱۹۰۱۔ مسلم، رقم ۱۷۳۱)
’’اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اورآخری حصہ آتش جہنم سے رہائی اور نجات ہے۔‘‘(شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۶۰۸)
’’اس مہینے میں جو شخص رب کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنی خوشی سے کوئی نفل نیکی کرے گا، وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجروثواب پائے گا۔‘‘ (شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۶۰۸)
ماہ رمضان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے دو اہم واقعات رونما ہوئے ۔ حق و باطل کی پہلی فیصلہ کن جنگ غزوۂ بدر اسی مہینے میں ہوئی۔اسی ماہ مبارک کے ایک دن کو ﷲ نے ’یَوْمَ الْفُرْقَانِ‘ (الانفال۸: ۴۱) کہہ کر پکارا جس دن حق کو پہلی فتح حاصل ہوئی اور باطل سرنگوں ہوا۔اس برکت والے مہینے رمضان ہی میں مکہ فتح ہوا۔ گویا اسلام کی پوری تاریخ ابتدا سے تکمیل تک اس مہینے سے ناتا رکھتی ہے ۔
ماہ رمضان ہر سا ل ہمیں انھی رشتوں کی یاددہانی کرانے آتا ہے ، اس کی آمد سے ہمیں نیا حوصلہ اور نیا ولولہ ملتا ہے اور ہم دینی ترقی کا ایک زینہ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ اس مہینے میں ہم واجب نمازوں کی بہتر پابندی سے اور نوافل ادا کر کے نیز باقاعدگی سے تلاوت قرآن کر کے سچے اور پکے مسلمان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا شعور بلند ہوتا ہے اور اپنے فرائض منصبی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
یہ مہینا ہمیں انسانی ہم دردی اور دوسروں کے لیے قربانی کا درس بھی دیتا ہے۔ رضاے الٰہی کے لیے بھوکا پیاسا رہنے سے ہم میں دوسروں کی بھوک اور تکلیف کا احساس بیدارہوتا ہے۔ روزے سے ہم ضبط نفس (self discipline) بھی سیکھتے ہیں، انواع و اقسام کے کھانے ہوتے ہوئے ان سے دور رہنا ہمیں جائز و ناجائز میں فرق سکھاتا ہے اور یہ سبق سکھلاتا ہے کہ ہم اپنا حق تصرف تبھی استعمال کر سکتے ہیں جب اس سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔
روزہ دار خلوت میں کھا پی سکتا ہے، لیکن وہ محض اپنے رب کی خاطر اس وقت بھی خور ونوش سے باز رہتا ہے جب کوئی بشر اسے دیکھ نہیں رہا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’روزے کے سوا ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لیے ہوتا ہے ۔روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، روزہ دار اپنی نفسانی خواہشات اور کھانے پینے کو میری خاطر چھوڑ دیتا ہے‘‘ (بخاری، رقم ۱۹۰۴،۲ ۷۴۹)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
۱ : (البقرہ۲: ۱۸۳)
۲: (البقرہ۲: ۱۸۵)
۳: (القدر۹۷: ۱۔۳)
۴: (بخاری، رقم ۲۰۲۱۔ مسلم، رقم ۲۷۳۳)۔
۵: (البقرہ۲:۱۸۵)
۶: (نسائی، رقم ۲۱۰۸۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۷۹۵۵)۔
۷: ترمذی، رقم ۶۸۲۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۵۹۸)
۸: (شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۶۰۸)
۹: (بخاری، رقم ۱۹۰۱۔ مسلم، رقم ۱۷۳۱)
۱۰: (بخاری، رقم ۱۹۰۴،۲ ۷۴۹)
/۹۸۸/ ن۷۰۱