تحریر: نصرت علی شہانی
بیان و قلم کو اللہ تعالیٰ کی عطاء و امانت سمجھتے ہوئے استعمال کیا جانا چاہیئے، کل بروزِ قیامت اس بارے بھی سوال ہوگا۔ اب جبکہ وطن عزیز حالتِ جنگ میں ہے، قریبی ہمسایوں سے بہتر تعلقات ہمارے مفاد میں ہیں، بعض اہل قلم ہمارے دیرینہ، قابلِ اعتماد، ہمسایہ برادر ملک ایران کے خلاف زورِ قلم صرف کرکے دراصل بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی خواہش کو پورا کر رہے ہیں۔ افغانستان کا کردار تو سب کے سامنے ہے۔ نوائے وقت کی 28 فروری اور یکم مارچ کی اشاعت میں جناب محی الدین بن احمد الدین نے ’’امارات پالیسی مرکز‘‘ کی خاتون صدر کے حوالے سے پورے 2 کالم ایران کے خلاف لکھ ڈالے گئے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اِس ’’نابغہ‘‘ خاتون سے یہ پوچھا جاتا کہ اِن کے پالیسی مرکز نے اپنے ہم زبان و ہم مسلک مظلوم فلسطینیوں کیلئے کیا پالیسی وضع کی اور اس پر کتنا عمل ہوا، نیز یہ کہ مشہورِ زمانہ اسلامی فوجی اتحاد نے کس مسلمان مظلوم ملت کا ساتھ دیا؟ کشمیر، فلسطین و برما کے ظلم کی چکی میں پِستے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے مذکورہ پالیسی مرکز نے اِس فوجی اتحاد کو کیا پالیسی دی؟ یا کم از کم اس فوجی اتحاد کے واحد ہدف و شکار یمن کے متأثرہ ہزاروں مظلوم بچوں کیلئے اِس نابغہ خاتون صدر نے کیا اقدامات کیے؟ اماراتی وفاق عرب ممالک کا مؤثر حصہ ہے۔ OIC کے موجودہ اجلاس میں بھارت کی شرکت بھی کیا اِس محترمہ کی فکری بلوغت و نبوغت کا نتیجہ ہے؟
اِن کالموں میں ایران کے خلاف پرانے اور گھِسے پٹے الزامات دہرائے گئے۔ ایران، امریکہ ’’پُر اسرار اشتراکِ عمل‘‘ کے بھی فقط کالم نگار اور مذکورہ خاتون ہی گواہ ہیں۔ 40 سال پر محیط ایران دشمنی کے دیگر اقدامات کے علاوہ ایران پر بدترین اقتصادی پابندیاں اِس کا اہم ’’ثبوت‘‘ ہیں۔ ایران کی اسلامی حکومت نے 40 سالوں میں امارات کے کسی جزیرہ پر قبضہ نہیں کیا۔ خطے میں بدامنی کیلئے امارات کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اِس خطے کا نام ہی ’’خلیج فارس‘‘ ہے۔ کیا پورے جزیرۃ العرب کو انگریزوں نے حصے بخروں میں نہیں بانٹا تھا؟ ایران پر متکبر ہونے کا بہتان بے بنیاد ہے۔ عرب اور ایرانی راہنماؤں کے رہن سہن سے عام آدمی بھی اندازہ کرسکتا ہے۔ چونکہ ایران کے داخلی استحکام اور امن سے امریکی اسرائیلی لابی کو پریشانی ہے، اِسی لیے ان کے اندرون ملک مضبوط سکیورٹی نظام کو بھی ’’ریاستی جاسوسوں‘‘ کا مرہون قرار دیا گیا، جس کی بنا پر دہشتگردی نہیں ہو پاتی۔
ایرانی عوام کو مظلوم اور زیرِ شکنجہ لکھا گیا، حالانکہ چند ہی دن قبل اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر پورے ملک میں کروڑوں عوام نے سڑکوں پر مارچ کرکے اس بہتان کی نفی اور انقلاب دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ قطر، ایران تعلقات کے ذکر میں بھی غلط بیانی کی گئی۔ دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب کے قطر کے خلاف معاندانہ اقدامات کے نتیجہ میں قطر نے ایران سے قربت اختیار کی۔ افغانستان و عراق میں امریکی مداخلت میں ایران کا ذکر بھی بغیر دلائل کے کیا گیا۔ شام چونکہ واحد عرب ملک ہے، جس سے اسرائیل کو خطرہ ہے، اسی لیے امریکی و عربی حمایت یافتہ ’’داعش‘‘ کی شام میں عبرتناک شکست سے اس کے سرپرست اور حامی بوکھلا کر بے سر و پا باتیں کرتے ہیں۔
کالم میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی مؤقف کی ترجمانی کی گئی، چونکہ یہی وہ حقیقی مجاہدین ہیں، جنہوں نے اسرائیل کو نکیل ڈالی ہوئی ہے۔ اگر ایران نے ان کی تربیت کی ہے تو اسے داد دینی چاہیئے۔ القاعدہ، طالبان، داعش وغیرہ تو مسلمان ممالک میں قتل و غارت کرتے رہے، انہوں نے اسرائیل میں خودکش حملے کیوں نہیں کئے؟ کالم نگار اور ڈاکٹر کتیبی اس کا ضرور جواب دیں۔ حزب اللہ نے کسی اسلامی ملک تو درکنار اسرائیل کے شہری یہودیوں کو بھی ہدف نہیں بنایا، چونکہ ان کی صحیح اسلامی تربیت کی گئی ہے کہ بے گناہ چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو، اس پر ظلم جائز نہیں۔ یمن کے حوثیوں کی جمہوری جدوجہد میں ایران کی حمایت کوئی جرم نہیں۔ دراصل اسی طرح کے الزامات بھارت کے مؤقف کو تقویت پہنچاتے ہیں، جو کشمیری مجاہدین کی حمایت پر پاکستان کے خلاف لگاتا ہے۔ انتخابات کے نتیجہ میں مختلف ایرانی صدور کے حوالے سے تجزیہ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں نئی حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی ایک عام مشاہدہ ہے۔ دینی تعلیم کیلئے قم میں حزب اللہ اور حوثیوں کو بلوا کر ’’برین واشنگ‘‘ کا الزام کوئی صاحبِ عقل ماننے کو تیار نہیں۔ کیا قلیل تعداد والے غیر شیعہ حوثی برین واشنگ کے نتیجہ میں 42 ملکی فوجی اتحادکے سامنے سینہ سپر ہوسکتے ہیں؟ واضح رہے کہ کشمیر، فلسطین، لبنان، یمن کے مجاہدین فقط قوتِ ایمانی سے ظلم کے آگے سینہ سپر ہیں۔
کالم میں دنیا میں شیعہ آبادی کا فیصد ذکر کرنا بے محل ہی نہیں گمراہ کن ہے۔ یہی استدلال اسلام دشمن، دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی کے بارے پیش کرتے ہیں۔ حزب اللہ پر لبنانی قوم کو یرغمال بنانے کا الزام بھی اسرائیلی ترجمانی ہے۔ لبنانی قوم حزب اللہ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بلکہ ان کی گرویدہ ہے، کیونکہ انہیں اسرائیلی درندوں سے بچایا ہوا ہے۔ حزب اللہ نے کسی لبنانی کو قتل یا خودکش حملہ کا ہدف نہیں بنایا۔ کالم میں نہایت افسوسناک بہتان تراشی کی گئی کہ دوسرے ملکوں کے شیعہ طلباء کی ایران میں دینی تعلیم کے دوران برین واشنگ کی جاتی ہے اور وہ واپس جا کر انقلاب کا نمائندہ بنتا ہے۔ کالم نگار اگر پاکستان میں رہتے ہیں تو یہ سنگین الزام لگانے سے پہلے وطن عزیز کو سامنے رکھتے، جہاں گذشتہ چالیس سال میں ہزاروں شیعہ دینی طلباء ایران سے تعلیم حاصل کرکے آچکے ہیں۔ انقلاب لانے، تختہ الٹنے کی ایک بھی جھوٹی خبر کالم نگار ثابت نہیں کرسکتے۔ ایران سے پڑھ کر آنے والے تو درکنار کسی مقامی مدرسہ کا شیعہ طالب علم بھی کسی خودکش حملے میں ملوّث نہیں، البتہ طالبان کی نفاذِ اسلام کیلئے اسلام آباد کی طرف لشکر کشی، تحریک نفاذِ شریعت، تحریک خلافت، داعش وغیرہ کے اقتدار و انقلاب کیلئے کئے گئے اقدامات کی تفصیل بھی محی الدین صاحب کو بتانا چاہیئے کہ ان کی تعلیم و برین واشنگ کہاں کی گئی؟
لبنان اور یمن کی فکر چھوڑیں کہ ان کے نوجوانوں کی ایران میں برین واشنگ کی گئی، کالم نگار بتائیں کہ وطنِ عزیز کو تباہ کرنے والے، بے گناہ شہریوں، عسکری اداروں، معصوم بچوں پر خودکش حملہ کرنے والوں کی برین واشنگ کس نے کی، کس نے تربیت دی، ان دہشتگردوں کے سرپرست و پناہ دینے والے کون تھے۔؟ موصوف کو شاید علم نہیں کہ اسی برین واشنگ کے ذمہ دار ادارہ ’’جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ‘‘ ایران کے فارغ التحصیلان کی اسناد کو وزارتِ تعلیم پاکستان، HEC ایم اے اور ایم فل کے مساوی قرار دیتا ہے، یہ کام وہاں پڑھائے جانے والے نصاب کا دقیق جائزہ لینے کے بعد ہوتا ہے، جو کہ فرقہ واریت و دہشتگردی کی تعلیم سے پاک ہے۔ اگر یہ نابغہ خاتون اور ان کا پالیسی ساز ادارہ اپنی باتوں پر یقین رکھتا ہے تو عرب دنیا اور اماراتی وفاق امریکہ کے ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کردار کا ادراک کرتے ہوئے ایران کی طرح نہ سہی ظاہری طور پر ہی امریکہ سے اعلانِ لاتعلقی کی جرأت تو کریں۔/۹۸۸/ ن
منبع: اسلام ٹائمز