تحریر: تصور حسین شہزاد
پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان میں کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کیخلاف کارروائی کا تذکرہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی کھلے الفاظ میں اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ دہشتگردوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور کالعدم تنظیموں کیخلاف بھی ایکشن ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ ہم عالمی دباو پر نہیں بلکہ اپنی ضرورت کیلئے کر رہے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اور کالعدم جماعت سپاہ صحابہ ان کی سیاسی اتحادی تھی، اس کیساتھ ساتھ نواز لیگ کے دورِ حکومت میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر بھی الزام تھا کہ وہ کالعدم تنظیموں کیساتھ رابطے میں ہیں اور انہی کے تعلقات کی وجہ سے ان تنظیموں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی، جبکہ اس سے قبل 2001ء میں لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد کو کالعدم قرار دیدیا گیا تھا۔
دونوں جماعتوں پر پابندی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں لگائی گئی۔ اس کے بعد 2002ء میں مزید 5 تنظیموں پر پابندیاں لگا دی گئی، ان میں لشکر طیبہ، جیش محمد اور سپاہ صحابہ شامل تھیں۔ 2003ء میں ان پابندیوں کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا اور 8 مزید تنظیموں کو کالعدم قرار دیدیا گیا تھا۔ ان میں القاعدہ اور بعض بلوچ تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ اس طرح ہر دو تین سال کے بعد اس فہرست میں اضافہ ہوتا گیا اور مزید تنظیمیں اس میں شامل ہوتی رہیں۔ پھر نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی جسے نیکٹا بھی کہا جاتا ہے، معرض وجود میں آئی، اس کی ویب سائٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے 68 جماعتوں پر پابندی لگا دی اور کالعدم جماعتوں کی اس فہرست میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو بھی شامل کر لیا گیا، جس کے بعد کل کالعدم تنظیموں کی تعداد 70 ہوگئی ہے۔
ایک عجب صورتحال یہ ہے کہ ان کالعدم تنظیموں کیخلاف ہمیشہ کارروائی کسی واقعہ کے بعد ہی ہوتی ہے۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان تنظموں کیخلاف کارروائیاں بیرونی دباو پر ہی عمل میں لائی جاتی ہیں۔ شدت پسند تنظیموں پر پابندیاں تو متعدد ادوار میں لگتی رہی ہیں، مگر یہ پابندیاں کچھ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئیں۔ ان تنظیموں نے نام بدل کر دوبارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئیں ہیں۔ جس کے باعث ان پر پابندی کا مقصد ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سپاہ صحابہ تھی، اس میں سے لشکر جھنگوی نے جنم لیا۔ لشکر جھنگوی کی کارروائیوں کے باعث اسے پہلے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ بعد میں سپاہ صحابہ کے تکفیری رویئے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے باعث اسے بھی کالعدم قرار دیدیا گیا۔ سپاہ صحابہ کی قیادت نے نیا نام "اہلسنت والجماعت" رکھا اور دوبارہ سرگرمیاں جاری کر دیں۔ اس نام پر بہت سے طبقوں نے اعتراض بھی کیا۔ بالخصوص اہلسنت بریلویوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے کہ ہم ہی اہلسنت والجماعت ہیں، لہذا اس نام سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستانی بریلوی شدت پسند ہیں، اس لئے اس تنظیم کو یہ نام استعمال نہ کرنے دیا جائے۔ اس حوالے سے عدالت سے بھی رجوع کیا گیا، مگر بات نہ بنی اور یہ تنظیم اہلسنت والجماعت کے نام سے سرگرم رہی۔
اس کے بعد "اہلسنت والجماعت" نے قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا اور نئی سیاسی جماعت "راہ حق پارٹی" کے نام سے سیاسی میدان میں آگئے اور اس وقت پنجاب اسمبلی میں مولانا معاویہ اعظم اسی جماعت کی جانب سے رکن اسمبلی ہیں۔ یہ جماعت جو اہلسنت والجماعت کے نام سے مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ دیوبندی مکتب فکر کی اکثریت ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ ان کے مدمقابل اہل تشیع کی جماعت "تحریک جعفریہ" تھی۔ تحریک جعفریہ کو بھی کالعدم قرار دیدیا گیا۔ اس حوالے سے تحریک جعفریہ کی قیادت کا موقف ہے کہ وہ کبھی بھی شدت پسندی کی حامی نہیں رہی، بلکہ انہوں نے روزِ اول سے ہی دہشتگردی کی مذمت و مخالفت کی ہے۔ تحریک جعفریہ کے قائدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں ان کیساتھ زیادتی کی ہے۔ زیادتی یہ ہے کہ متاثرینِ دہشتگردی کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا گیا، جس سے دہشتگردوں کا ہانکا گیا
تحریک جعفریہ نے اس حوالے سے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا، جس میں تحریک جعفریہ کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے مگر حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کی جماعت سے پابندی نہیں ہٹا رہی۔ تحریک جعفریہ کے قایدین کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور وطن کی سالمیت کیلئے قربانیاں دی ہیں، اس کے باوجود انہیں دہشتگردوں کیساتھ کھڑا کرکے ریاستی اداروں نے ظلم کیا ہے۔ اس حوالے سے اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کوئی تصفیہ کروا دیا جائے اور تمام جماعتوں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ تصفیہ کروانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ جماعتیں قومی دھارے میں آگئیں تو ملک میں امن ہو جائے گا اور ہر طرح راوی چین ہی چین لکھے گا، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ جماعتیں نظریاتی ہیں۔ جب نظریہ ہی تکفیریت ہو تو دھارا جو مرضی ہو، فکر جب تبدیل نہیں ہوگی، وہ اپنی روش ترک نہیں کریں گے اور تکفیریوں کی روش ہی مخالفین کو کافر کہنا ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ قومی دھارے میں آکر "کافروں" کو سینے سے لگا لیں گے۔
ظاہر ہے اس موقع پر ان کے اپنے پیروکار ان کے گریبان پکڑیں گے کہ کل تک تو آپ انہیں کافر کہتے تھے اور آج انہیں سینے سے لگائے پھرتے ہو؟ یا آپ کل غلط تھے یا آج غلط ہو، تو یہ صورتحال ان کیلئے کسی طور بھی "پُرامن" نہیں ہوسکتی۔ جس جماعت کے قیام کا مقصد ہی تکفیریت ہو، اس سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بھائی چارے کی بات کرے گی۔ ان کالعدم جماعتوں کیخلاف صرف کارروائی ہی تمام مسائل کا واحد حل نہیں بلکہ ان تنظیموں کو شدت پسندی سے دُور کرنا سب سے اہم معاملہ ہے، لیکن اس ضمن میں حکومت کے پاس کوئی باقاعدہ منصوبہ نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں تمام ادارے ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھا کر اس اہم نوعیت کے قومی معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان شدت پسند تنظیموں کے "سرپرستوں" کیلئے ایک مشورہ ہے کہ وہ انہیں قومی دھارے میں لانے کی بجائے قومی دھارے سے مکمل آوٹ کر دیں۔
یہ اپنی فکری روش کو کسی طور بھی ترک نہیں کرسکیں گے۔ اگر ملک میں امن قائم کرنا ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی سے بچانا ہے تو انہیں بالکل کارنر کر دیں۔ ان کی ہر قسم کی اجتماعی سرگرمیوں پر عملی طور پر پابندی لگا دیں۔ یہ بالکل بے پایاں ہوں گے تو کچھ بات بن سکتی ہے۔ نئی نسل کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کریں، تمام مکاتب فکر اور مذاہب کو آئین کے مطابق مذہبی آزادی دی جائے، کسی کو کسی کے عقائد پر اعتراض نہ کرنے دیا جائے، "جیو اور جینے دو" کا اصول اپنایا جائے، "اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں" ماٹو بنا لیا جائے تو بہتری آسکتی ہے، بصورت دیگر صرف کالعدم کرنے کے اعلان سے کچھ نہیں ہوگا۔ دہشتگردی اور شدت پسندی کے درخت کی شاخیں کاٹ کر سمجھ لینا کہ دہشتگردی اور شدت پسندی ختم ہوگئی ہے تو یہ صرف خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، شدت پسندی اور دہشتگردی کے درخت کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔/۹۸۸/ ن
منبع: اسلام ٹائمز