تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
"محض تمثیلی داستان نہیں ..."
کسی گاوں میں تالاب کے کنارے میڈھکوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا، انکے ٹرٹرانے اور تالاب میں ادھر سے ادھر چھلانگ لگانے کا نظارہ گاوں کے بچے دیکھتے تو بہت خوش ہوتے، ایک بار ایسا ہوا کہ مسلسل ٹرٹرانے کی بنا پر قریب میں کسی نالے میں رہنے والے سانپ نے سوچا ذرا چل کر دیکھیں یہ کونسی قوم ہے جو ہر وقت ٹراتی رہتی ہے ، صبح ہو تو ٹر ٹر شام ہو تو ٹر ٹر اور رات گئے تک انکی ٹرٹراہٹ جاری رہتی ہے ذرا چل کر دیکھتے ہیں انکا کام کاج کیا ہے اور یہ کیوں ہر وقت ٹراتے رہتے ہیں یہ سوچ ایک شام سانپ ادھر نکل آیا میڈھک تالاب کے کنارے اپنی گردنیں اٹھائے ٹرانے میں مشغول تھے اور انکے بچے پانی میں قلابازیاں کھیل رہے تھے سانپ نے ہرے ہرے ان میڈھکوں کے بچوں کو دیکھا تو خاموشی کے ساتھ کئی ایک پر ہاتھ صاف کر دیا ،میڈھک اپنی زندگی میں اتنے مگن تھے کہ چند ایک بچوں کے گم ہو جانے پر محض غم گین ہو کر بیٹھ گئے اور یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی آخر انکے بچوں کی تعداد کم کیوں ہو گئ، سانپ نے جب میڈھکوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ دیکھی تو اسے اور جرات ہوئی وہ جب بھوکا ہوتا سیدھا وہی پہنچتا جہاں میڈھکوں کا جھنڈ رہتا آہستہ آہستہ میڈھکوں کے درمیان سے جب بڑھے بوڑھے بھی غائب ہونا شروع ہوئے تو اب تشویش بڑھی اور سب نے مل کر میٹنگ کی اور طے پایا کہ ابکی بار سانپ آیا تو سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑیں گے ایک آدھ کے جان ہی جائے گی لیکن سانپ کو سبق مل جائَے اور وہ ہمیں اپنا نوالہ تر سمجھ کر روز نہیں ستائے گا ،میڈھکوں نے اپنے پنجوں کو تیز کرنا شروع کر دیا انکو اپنی تعداد پر بھروسہ تھا کہ یہ اکیلا سانپ مقابلہ کرے گا بھی تو کتنوں کا میڈھکوں کے جھنڈ میں ایک دو نہیں سیکڑوں جانباز سپاہی اس کا مقابلہ کر نے کو تیار تھے ،وقت طے ہو گیا اور سب نے اپنا اپنا محاذ سنبھال لیا سانپ کے آنے کا وقت ہوا چاہتا تھا پانی میں ایک حرکت ہوئی میڈھنک حملہ کرنے کو اچکے ،خطرہ کو بھانپا اور یلغار پانی میں چھپاک چھپاک کی آوازیں آئیں اب جو مطلع کارزاز نمایا ہوا ور تو منظر ہی کچھ اور تھا چار پانچ بڑے بڑے سانپ مل کر میڈھکوں کو انکی اوقات بتا رہے تھے ، سانپ نے خطرہ بھانپ لیا تھا اس بار وہ اکیلا نہیں تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے کر آیا تھا سو اس بار بھی ،
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
میڈھکوں کی اچھی خاصی تعداد سانپوں کے متحد حملے میں کام آچکی تھی ہر طرف نالہ و شیون تھا میڈھکوں کے ٹرانے کی آوزیں بھی مرتعش ہو چکی تھیں ایسے میں کچھ ریش سفیدوں نے مل کر نیا منصوبہ بنایا کہ ایسے تو کام نہیں چلے گا ہمیں کسی کا ہاتھ پکڑنا ہوگا اپنی بقا کے لئے کسی کے دامن میں پناہ لینی ہوگی ،سو طے پایا کہ سانپ کا ایک بڑا دشمن نیولا ہے سب اکھٹے ہو کر چلیں اور نیولوں کے سردار کے مدد مانگیں جو تالاب ہی نزدیک رہتا ہے اور اکثر و بیشتر سانپوں سے اسکی جنگ کے مناظر لوگ دیکھتے ہیں ، اب مینڈھکوں کا ایک وفد نیولے کے سردار کے پاس تھا ،میڈھکوں نے رو رو کر اپنی روداد بیان کی چونکہ بات ازلی دشمن کی تھی نیولوں نے کہا ٹھیک ہے ہم تمہاری مدد کو تیار ہیں اور پھر مینڈھکوں کی پریشانی ختم ہو گئی کہ نیولوں کو میڈھکوں کے ساتھ دیکھ کر سانپوں نے ادھر کا رخ نہیں کیا اور جو ایک دو آئے بھی تو وہ نیولوں کا شکار بن گئے ، دن گزرتے گئے اب میڈھکوں کی نیولوں سے دوستی ہو چکی تھی جہاں کہیں بھی میڈھک کوئی سانپ دیکھتے خاموشی کے ساتھ مخبری کر دیتے نیولے بروقت پہنچ جاتے اور سانپ کا کام تمام ہو جاتا یوں میڈھکوں کی دوبارہ سے چاندی ہو گئی انہوں نے نیولوں سے کامیاب مذاکرات کا جشن بھی منایا اور اپنی بساط بھر جو تحفے تحائف دے سکتے تھے نیولوں کو دئے کہ بہر حال نیولوں کی وجہ سے وہ سانپوں کے آتنک سے محفوظ تھے نیلوں نے بھی انہیں لال چادریں پیش کیں کہ تم اپنے ہو یہ پہن کر نکلوں تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا پھر کیا تھا ہرے بھرے میڈھک سرخ لباسوں میں تالاب کی سیر کرنے لگے آہستہ آہستہ زندگی کی رونقیں پلٹنے لگیں۔ اب پھر سے مینڈھکوں کے ٹرانے کی آوازیں بھی آنے لگیں تھیں اور انکے درمیان پہلےکی سی گہما گہمی بھی ہونے لگی تھی رات میں بھی تادیر انکی محفلیں جمی رہتیں وہ گاتے بجاتے خود میں خود میں مگن رہتے نہ کسی خطرہ کا احساس نہ مستقبل کی فکر آج ہی آج اور موج ہی موج کھاتے پیتے موج مناتے ۔
ایک دن اچانک راستہ چلتے ہوئے گاوں کے بچے نے تالاب کے نزدیک بہت سے مرے ہوئے مینڈھکوں کو دیکھا کسی کے پیر کسی کی آنکھیں کسی کی انتڑیاں نکلی پڑی تھیں اور دور نیولوں کا ایک جھنڈ تھا جو کود کود کر میڈھنکوں کو اوپر اچھال رہا تھا ۔دہیاتی لڑکا مینڈھکوں کے حا ل پر افسوس کر تا ہوا چلا گیا کچھ دن بعد اس نے عجیب منظر دیکھا ایک پرانے جوہڑکے میں پانی میں اتھل پتھل ہو رہی تھی اس طرف کچھ سانپ تھے جو مینڈھکوں کو کھا رہے تھے مطلب میڈھک نہ گھر کے رہے تھے نہ گھاٹ کے ایک تو انکا کھلا دشمن تھا دوسرے کو وہ دشمن سے مقابلہ کے لئیے دوست بنا کر گھر لائے تھے اور اپنے گھر کا پتہ از خود بتا دیا تھا ایسے میں انکا یہی حال ہونا تھا لڑکے نے یہ سب دیکھا اور وہاں موجود اس نے کسی بزرگ سے سوال کیا یہ میڈھکوں پر قضا کیوں ؟ ان کا جواب تھا کہ نیولوں نے جب حملہ کیا تو کچھ مینڈھنک بجائے مقابلہ کے یہ کہہ کر ساپنوں کو بلانے چلے گئے کہ اس سے بہتر تو سانپ ہی تھے ہمیں کھاتے ہی تھے چیر پھاڑ کر تو نہیں پھینکتے تھے اور یوں میڈھکوں کا اتحاد ٹوٹ کر دو حصوں میں بنٹ کیا کچھ سانپ کی طرف چلے گئے کچھ نیولوں کے طرفدار ہو گئے کہ جبکہ ادھر سانپ اور نیولے دونوں ہی یہ سوچ کر خوش تھے کہ ہمارا لقمہ خود چل کر ہم تک پہنچ گیا اس سے بہتر کیا بات ہوگی ۔دہیاتی لڑکے نے سر جھکا کر اپنے گھر کی راہ لی جگہ جگہ اسکے راستے میں مینڈھکوں کی لاشیں تھیں اور پاس ہی ایک بوڑھے میڈھک کی کراہتی آواز آ رہی تھی کہ ہم مینڈھک ہیں ہماری تقدیر ہی حملوں کا شکار ہونا ہے خود اپنے بل پر کچھ نہیں کر سکے تو یہی ہوگا کبھی دشمن کی صورت سانپ ڈسے گا کبھی دوست کی شکل میں نیولا ہمیں مارےگا ۔ ہم تب تک کر مرتے رہیں گے جب تک این و آن کا دامن تھامے رہیں گے اگر ہم خود ملکر ایک دوسرے کے اچھے دوست نہیں ہو سکتے تو یہ کیسے سوچ سکتے ہیں دوسرا ہمارا دوست بن جائے گا اگر ہم مل کر اپنا دفاع نہیں کر سکتے توکیسے سوچ سکتے ہیں دوسرا ہمارا دفاع کرے گا ۔ افسوس کہ ہم میڈھک ہیں اور میڈھک ہی رہ گئے، افسوس کہ ہمارے پاس افسوس کے سوا کچھ نہیں۔
میڈھک کی یہ تمثیلی داستان ہندوستان میں امت مسلمہ کی حالات زار پر کافی حد تک منطبق نظر آتی ہے بس فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی دیہاتی لڑکا نہیں جو بزرگ سے سوال کرے کہ ہماری حالات زار ایسی کیوں کہ ہم جس پارٹی کا ہاتھ تھامتے ہیں وہ ہمیں اقتدار حاصل ہوتے ہی دھتکار دیتی ہے جن لوگوں کو رورو کر اپنا دکھڑا سناتے ہیں وہی ہماری نابودی کا حکم نامہ صادر کرتے ہیں آخر کیوں ہم نہیں جاگتے کیوں اس طرح سوئے ہیں کہ کسی خطرہ کا نہ تو ہم احساس کر پا رہے ہیں اور نہ ہم اپنے سے پہلے گزر جانے والے بزرگوں کی درد میں ڈوبی آواز سن پا رہے ہیں جو درد میں ڈوبی لیکن بہت عمیق اور گہری ہے کاش ہم عقل کےناخن لیں اور میڈھکوں کی طرح تباہ ہونے سے بچ جائیں اس لئے کہ وہ مینڈھک تھے مگر ہم تو نہیں یہ اور بات ہے کہ *ہم بھی میڈھکوں کی طرح دیکھتے رہے اور ہمارے مضبوط ترین پلر گرتے رہے دشمن اپنی طرف کھینچ کر انہیں لال چنری اڑاتا رہا اور ہم سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ جو لال چنریاں تقسیم ہو رہی ہیں اور اچھے خاصے سفید ش سرخ پوشاکیں پہنے نظر آر ہے ی جو فکریں رنگین ہو رہی ہیں ۔
یہ در حقیقت یہ ہماری بربادی کی داستان رقم ہو رہی ہے ہم نے ہر دفعہ تالیاں بجائیں اور فوٹو شئیر کئے اور دستاریں اچھالیں یہ بھی گئے وہ بھی گئے یہ بھی لال و ہ بھی سرخ البتہ ان میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جنہوں نے بروقت متوجہ بھی کیا اور کچھ بڑے بڑے سروں کے سرخ رکابیوں میں سجنے سے پہلے ہی بھانپ لیا کیا ہو رہا ہے اور خطرے سے آگاہ بھی کیا لیکن موجودہ حالات کے ذمہ دار د بڑے بڑے ناموں کی عقلوں پر پتھر پڑ چکے تھے سو انہوں نے دھیان ہی نہیں دیا باقی زیادہ تر لوگ تفریحا دستار اچھالنے کے گیم میں بنے رہے کہ کون اونچی اچھالے اس سے بے خبر کہ جو پگڑی اچھل رہی ہے اسکے ساتھ قوم کا سر بھی نیچا ہو رہا ہے ایسے میں معاملہ دو طرفہ رہا کچھ تو لوگوں نے خود اپنی دستار و پگڑی اچھالنے کا ایک مقابلہ رکھا کہ آو کون زیادہ اوپر اچھالتا کہیں ظالم و ستمگر کی تعریف و تمجید کا مقابلہ ہوا تو کہیں ظالمانہ طرز حکومت کو مثالی قرار دیا گیا۔ جب بڑوں بڑوں کا یہ حال تھا تو عام لوگ کیوں پیچھے رہتے القاب کے بازار گرم ہوئے ناموں کو نجس ترین اضافتوں سے جوڑا گیا اس سے بے خبر ہو کر کہ جو غلط ہے اسکی غلطی کو بیان کرنے کے لئے اسکی غلط سوچ غلط فیصلہ غلط فکر غلط کردار کافی ہے کسی کے نام کو بگاڑنے کی اجازت نہ دین دیتا ہے نہ شریعت، لیکن صحیح غلط تو وہی سوچتا ہے جو تعمیر چاہتا ہے کسی کو اگر کھجلی ہو جائے تو اسے ہر دوا کڑوی لگتی ہے سارا مزہ کھجلانے میں ہی آتا ہے، دستاریں اچھل رہی تھیں اور خود صاحبان دستار اپنے کاموں سے اچھال رہے تھے تو قوم کیوں پیچھے رہتی اس نے بھی خوب اچھال اچھال کھیلا اور بچوں نے تالیاں بجائیں جرم میں سبھی شریک رہے ایک سنجیدہ گروہ کے علاوہ جسکی کم ہی سنی جاتی ہے کبھی اسے عافیت طلب کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کبھی مصلحت پسند کہہ کے منھ پر تھوک دیا جاتا ہے ان سب باتوں کا جو نتیجہ ہوا وہ سامنے ہے کاش ہم اس نوائے اقبال کے ساتھ ہم نوا ہو گئے ہوتے اور مستقبل کی تعمیر کے لئے کچھ سوچا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے جہاں بہت پہلے بہت ہی پہلے درد میں ڈوب کر شاعر مشرق نے ہمارا شانہ ہلایا تھا اور کل کی دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے آج سے یوں باخبر کیا تھا …
چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
سن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں