رسا ںیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ھندوستان کی ریاست اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ شہریت کے متنازعہ، ظالمانہ اور متعصبانہ قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس نے جو گولیاں چلائیں اور لاٹھیاں توڑی ہیں ان کا خرچہ مظاہرین سے وصول کیا جائے گا۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق، ریاست اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج میں شرکت کرنے والے 498 افراد کو پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے نوٹس جاری کیے ہیں، ان میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق ان لوگوں کو حکومت کی جانب سے اینٹی سوشل قرار دیا گیا ہے۔
جن 498 لوگوں کو نوٹسز بھجوائے گئے ہیں ان میں سے 82 کا تعلق لکھنؤ، 148 کا میرٹھ، 26 کا سمبھل، 79 کا رام پور، 13 کا فیروز آباد، 50 کا کان پور، 73 کا مظفر نگر، 8 کا ماﺅ اور 19 کا تعلق بلند شہر سے ہے۔ جن لوگوں کو نوٹس بھجوائے گئے ہیں ان میں سے بڑی تعداد پہلے ہی جیلوں میں بند ہے۔ بی بی سی کے مطابق 19 دسمبر کو ہونے والے مظاہرے کے دوران ایک پولیس جیپ کو آگ لگائی گئی تھی جس کے عوض مظاہرین سے ساڑھے 7 لاکھ روپے وصول کیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں وائر لیس سیٹ ، لاﺅڈ سپیکر ، ہوٹر توڑنے پر 31 ہزار 500 روپے اور پولیس بیریگیڈ توڑنے پر ساڑھے 3 لاکھ روپے وصول کیے جائیں گے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مظاہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے مظاہرین پر چلائی جانے والی گولیوں اور لاٹھیوں کا خرچہ بھی ان سے وصول کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے اب تک 19 مسلمانوں کو شہید کردیا ہے جبکہ ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور نہتے مظاہرین کے خلاف یوپی حکومت کی بربریت اور جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔