28 December 2019 - 12:54
News ID: 441824
فونت
ھندوستان:
ھندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اترپردیش میں شدت پسند حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ناروا سلوک اور پولیس کے بہیمانہ تشدد کی خبریں مسلسل موصول ہورہی ہیں اور مسلمانون کیلئے پاکستان یا قبرستان کے نارے بلند ہیں۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان بھر میں شہریت ترمیمی قانون مخالفت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ناروا سلوک اور پولیس کے بہیمانہ تشدد کی خبریں مسلسل موصول ہورہی ہیں، پولیس مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ مسلمان یا مرجائیں یا پاکستان چلے جائیں۔

اطلاعات کے مطابق اتر پردیش کے لکھنو سمیت کئی جگہوں پر پرتشدد احتجاج کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ حکومت مظاہرین کی شناخت کرواکر ان کو نقصان کی تلافی کا نوٹس بھیج رہی ہے۔

مظفر نگر میں پولیس پر تشدد اور لوٹ کا الزام لگایا گیا ہے۔ پولیس پر 72 سال کے لکڑی تاجر حاجی حامد کے گھر میں گھس کر تشدد، لوٹ اور توڑ پھوڑ کا الزام لگا ہے،لکڑی کے تاجر حاجی حامد نے بتایا کہ پولیس ان کے گھر میں گھسی اور ہنگامہ آرائی کی۔

لکڑی کے تاجر حاجی حامد کا کہنا ہے کہ 'جمعہ کو قریب 11 بجے تقریبا 30 پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں میرے مکان میں داخل ہوئے اور ہنگامہ آرائی کی، جب ان پولیس والوں کی مخالفت کی گئی تو انہوں نے حملہ کیا اور لاٹھی ڈنڈوں سے خوب پیٹا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی۔ ان لوگوں نے واش بیسن، باتھ روم، بستر، فرنیچر، ریفریجریٹر، واشنگ مشین اور کچن کے برتن توڑ ڈالے''۔گھر میں سب کچھ برباد کرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے بندوق کی نوک پر سونے، چاندی کے زیورات اور الماری میں رکھی 5 لاکھ روپے کی نقد رقم لوٹ لی۔

تاجر نے بتایا کہ میں نے حال ہی میں اپنی دو پوتیوں کی شادیوں کے لئے زیورات خریدے تھے۔ تاجر نے کہا کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں سے رحم کی بھیک مانگی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی، الٹے پولیس اہلکاروں نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے دو ہی جگہ ہیں، قبرستان یا پھر پاکستان۔

اس سے پہلے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران لکھنو میں بھی یوگی حکومت کی پولیس پر سنگین الزام لگے تھے، مظاہرین کا کہنا ہے کہ مظاہرہ کے دوران پولیس نے ان کے ساتھ بربریت اور فائرنگ کی ہے، حالانکہ پولیس نے اپنے اوپر لگے الزامات سے انکار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کے لباس میں آر ایس ایس کے اہلکار بھی بہمیانہ تشدد میں ملوث ہیں ، آرایس ایس کے سیکڑوں افراد پولیس کی وردی پہن کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ضلع مظفر نگر کی پولیس نے حزہ علمیہ حضرت امام حسین علیہ السلام میں بھی گھس کر طلباء اور اساتید کو بربریت کا نشانہ بنایا ، پولیس نے 17 طلباء کو زخمی کرنے کے بعد گرفتار کرلیا۔ پولیس نے حوزہ علمیہ کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین اسد رضا صاحب کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں توڑنے کے بعد گرفتار کرلیا ، لیکن بے گناہ ثابت ہونے پر انھیں بعد میں رہا کردیا گیا لیکن اس وقت وہ پولیس کے تشدد سے زخمی حالت میں ہیں۔

ادھر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ظالمانہ اقدامات پر ایک ہندو طالبہ نے رد عمل کے طور پر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قانون پر احتجاج کی آگ مزید پھیل گئی ہے، بھارتی پولیس نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے، مظفر نگر اور کانپور میں گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

احتجاج میں ہلاکتوں کی تعداد اب تک 28 ہو گئی ہے، جب کہ ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

دہلی کی ایک ہندو طالبہ نے احتجاجا اعلان کیا ہے کہ میرے کسی ساتھی کو حراستی مرکز میں ڈالا گیا یا ہندو مسلم کے نام پر تفریق کی گئی تو میں بھی مسلمان ہو جا ؤں گی، مذہب تبدیل کر لوں گی، ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، ایک کو گولی ماروگے تو دوسرا کھڑا ہوگا۔مزید برآں معروف بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے دہلی یونیورسٹی میں ایک احتجاجی اجتماع میں کہاکہ شہریوں کا قومی رجسٹر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬