تحریر: حجت الاسلام سید علی ہاشم عابدی
قرآن کریم کی روشنی میں انسان کی خلقت کا مقصد معبود کی بندگی ہے، اور یہ عبدیت حتی ہر الہی عھدہ و منصب سے افضل ہے۔ اسی لئے "اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ" میں عھدہ رسالت سے قبل مقام عبدیت ہے۔ اسی طرح امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اپنے خطوط میں اپنے آپ کو پہلے عبداللہ لکھا بعد میں امیرالمومنین "من عبداللہ امیرالمومنین"
رہبر کبیر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ اللہ کے عبد صالح، رسول اکرم کے حقیقی پیرو، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سچے شیعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے با مقصد اور با معرفت عزادار تھے۔
ہم اس مختصر تحریر میں آپ کی اہلبیت علیھم السلام کی اطاعت اور محبت کے چند نمونوں کی جانب اشارہ کریں گے۔
اسلام کو سب پر فضیلت
اہلبیت علیھم السلام کی سیرت میں جس امر کو سب پر فوقیت ملی وہ اسلام اور اسکی تعلیمات ہیں، اہل نظر سے پوشیدہ نہیں کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اسلام ہی کے لئے اپنے حق سے پیچھے ہٹے اور دین کے قیام ہی کی خاطر آپ نے حکومت فرمای، اسی طرح حضرت امام حسین کی مشہور حدیث ہے
إن کان دین محمّد لم یستقم الّا بقتلی فیا سیوف خذینی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا دین میرے قتل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا تو اے تلواروں آو اور مجھے قتل کردو۔
اگر ہم اس زاویہ سے امام راحل کی شخصیت پر نظر کریں تو ہمیں ملے گا کہ جب سلمان رشدی ملعون نے شیطانی آیات لکھی تو آپ نے اس کے قتل کا فتوی دیا، اس تاریخی فتوی سے سلمان رشدی سمیت تمام عالمی استعمار کا سکون و چین چھن گیا اور انھوں نے ایران کو دھمکی دینی شروع کر دی تو ایرانی حکومت کی بعض اہم شخصیات نے آپ سے ملک کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا : یہ ضروری نہیں کہ ایران باقی رہے بلکہ اسلام کی بقا لازم ہے۔
لوگوں کی تعلیم
اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی دین نے بھی لوگوں کی تعلیم پر وہ تاکید نہیں کی جیسی تاکید اسلام نے کی، بلکہ بعض ادیان میں تعلیم فقط اونچی ذات کا حق ہے اور پست ذات والوں کو علم حاصل کرنے کا کوی حق نہیں۔ جب کہ اسلام نے سب کے لئے حصول علم حق نہیں بلکہ فرض بتایا ہے۔ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد "تعلیمی تحریک" کا آغاز کرتے ہوے حکم فرمایا: پورے ایران کو مدرسہ/ اسکول بنا دو۔
اول وقت نماز کی اھمیت
جنگ صفین میں جب نماز کا وقت آیا تو حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے نماز کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا: مولا یہ میدان جنگ ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اسی نماز کے قیام کی خاطر جنگ کر رہے ہیں۔
اسی طرح روز عاشور جب زوال کا وقت ہوا تو شہید کربلا حضرت ابو ثمامہ صاعدی نے سرکار سیدالشھداء علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی مولا وقت نماز ہو گیا تو آپ نے فرمایا: تم نے نماز یاد دلای خدا تمھیں نمازیوں میں شمار کرے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے جب آپ پوری دنیا کے میڈیا سے مخاطب تھے جیسے ہی نماز کا وقت ہوا آپ نے اپنا خطاب روک دیا اور اول وقت نماز کو اہمیت دی۔
صرف خدا
اہلبیت اطہار علیھم السلام کی پوری حیات طیبہ میں رضاے معبود کے جلوے نمایاں ہیں۔ انکا ہر قول اور ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا اور انکو فقط اللہ ہی سے امید رہتی۔
جب شاہ ایران نے امام خمینی قدس سرہ کو گرفتار کیا تو ایک چاہنے والا روتا ہوا آیا تو آپ نے فرمایا: پریشان نہ ہو لوگ ہمارے ساتھ ہیں، احتجاج کریں گے اور میں واپس آ جاوں گا۔ لیکن اس گرفتاری کے بعد آپ کو جلا وطن کر دیا گیا اور آپ نجف اشرف تشریف لے گئے اور پھر پیرس میں جلا وطنی کی زندگی گذاری، 13 برس بعد اپنے وطن ایران واپس ہوے۔ جب آپ تہران میں بہشت زہرا سلام اللہ علیھا پہنچے تو وہی شخص آپ کو دکھا تو آپ نے اسے بلا کر فرمایا تمھیں یاد ہے جب میں گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا تو تم پریشاں حال میرے پاس آے تو میں نے تم سے کہا تھا کہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں، میں واپس آ جاوں گا اور اس میں مجھے تیرہ برس لگ گئے لیکن کل میں نے سوچ لیا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور آج میں ایران واپس آگیا۔
اہلبیت علیھم السلام ہی وسیلہ ہیں
معصومین علیھم السلام کی زیارت کے سلسلہ میں کثرت سے روایتیں موجود ہیں اور حالات جتنے بھی پر آشوب رہے ہوں زیارت کو ترک نہیں کیا گیا۔ متوکل جیسے ظالم و جابر کہ جس نے زیارت پر نہ صرف پابندی لگای بلکہ زیارت گاہ کربلاے معلی پر 17 بار حملہ بھی کیا۔ لیکن جب امام علی نقی علیہ السلام بیمار ہوے تو آپ نے ایک شخص کو کربلا زیارت کے لئے بھیجا تا کہ وہ کربلا جا کر آپ کی صحت کی دعا کرے۔ جب کہ آپ کو اللہ نے ولایت تکوینی عطا فرمای تھی آپ صرف ارادہ کر لیتے تو صحتیاب ہو جاتے۔ لیکن آپ نے زیارت کو اہمیت کی تعلیم دی۔
حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ جب آپ قم میں رہتے تھے تو روز کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کے لئے روضہ مبارک تشریف لے جاتے اور جب نجف اشرف میں رہے تو کبھی شب جمعہ کربلا کی زیارت ترک نہیں ہوی اور آپ کا دستور تھا کہ آپ روزآنہ شب میں حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی زیارت کے لئے روضہ مبارک تشریف لے جاتے اور وہاں زیارت جامعہ کبیرہ پڑھتے تھے۔ ایک رات میں کافی آندھی طوفان تھا آپ حسب معمول زیارت کی تیاری کر رہے تھے تو آپ کے فرزند شہید آیت اللہ سید مصطفی خمینی رہ نے آپ کو روکنے کے لئے مسکرا کر فرمایا امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے دور و نزدیک برابر ہے یہ عوامی فکر ہے کہ صرف نزدیک ہی سے زیارت ہو سکتی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: مصطفی جان آپ مجھے میری اس عوامی فکر میں رہنے دیں اور زیارت کے لئے چل پڑے۔
گریہ فقط حسین علیہ السلام پر
جب آپ کے عالم و فقیہ فرزند آیت اللہ سید مصطفی خمینی رہ شہید ہوئے تو انکی مجلس ترحیم میں خطیب نے انکی فضیلت اور شہادت بیان کی تو لوگ رو رہے تھے لیکن خود حضرت امام خمینی قدس سرہ اپنے بیٹے کی شہادت پر گریہ نہیں کر رہے تھے لیکن جیسے ہی خطیب نے حضرت علی اکبر علیہ السلام کے مصائب شروع کئے تو آپ نے با آواز بلند گریہ فرمایا۔ یعنی آپ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ہمارا گریہ و بکا فقط حسین علیہ السلام کے لئے ہے۔ اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ آپ مجلس حسین علیہ السلام میں اتنا شدید گریہ فرماتے کہ گردن کی رگیں نمایاں ہو جاتی تھیں تو آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ مجلس پوری دنیا میں نشر ہوتی ہے اور آپ رہبر کبیر انقلاب ہیں اتنا شدید گریہ مناسب نہیں تو آپ نے فرمایا مجھے اس کی کوی پرواہ نہیں۔
ہر حال میں عزاداری
حالات چاہے جیسے بھی ہوں معصومین علیھم السلام نے کبھی بھی شہداے کربلا کی عزاداری میں ذرہ برابر بھی فرق آنے نہیں دیا۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دربار یزید میں مصائب کربلا بیان فرماے، حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کی حکومت میں عزاداری قائم رکھی، حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ولی عھدی کے زمانے میں میں بھی عزاداری قائم کی اور جناب دعبل سے مرثیہ پڑھوایا۔ یہی روش ہر معصوم کی تھی۔
اسلامی انقلاب سے پہلے شاہ نے ایران میں مظلوم کربلا کی عزاداری پر پابندی لگا دی تھی اور جو عزاداری کرتا اسے سزا ملتی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ شب عاشور آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ اور آیت اللہ العظمی سید شھاب الدین مرعشی نجفی رہ ایک ساتھ تھے کبھی امام خمینی قدس سرہ مصائب پڑھتے اور آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رہ گریہ فرماتے اور کبھی آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رہ مصائب بیان کرتے اور امام خمینی قدس سرہ گریہ فرماتے، یہ عمل پوری رات جاری رہا۔
ہم رہبر کبیر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اور بارگاہ خدا میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں شھداے کربلا کے ہمراہ محشور فرماے
آمین ۔ /۹۸۸/ن