رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کے صدر بشار الاسد نے ملکی پارلیمنٹ کے تیسرے دور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملکی صورتحال، ملک پر عائد امریکی پابندیوں اور خطے میں آنے والی تازہ ترین تبدیلیوں پر گفتگو کی ہے۔
شامی صدر نے نئی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تقریر کے دوران اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران، عالمی میڈیا کی بھیانک چالوں کے مقابلے میں شامی عوام نے غیر معمولی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے، کہا کہ شام کے خلاف امریکہ کا قیصر ایکٹ شامی عوام کے خلاف جاری امریکی جرائم سے ہٹ کر کچھ نہیں جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی امریکہ اپنے طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے، پابندیاں لگانا شروع کر دیتا ہے۔
شامی صدر نے خطے کے اندر موجود دہشتگردی کے امریکی فورسز کے ساتھ خفیہ رابطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ داعش سمیت خطے کے اندر موجود تمام دہشتگردوں کا محتاج ہے جبکہ امریکی پابندیاں درحقیقت اس کی جانب سے دہشتگردوں کی حمایت کا اعلان ہے۔
بشار الاسد نے کہا کہ دہشتگردوں کو جب بھی ان کو سونپے گئے منصوبوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، امریکہ کی جانب سے ہونے والے معاندانہ اقدامات اور تناؤ میں ہمیشہ ہی تیزی آئی ہے۔
انہوں نے ملک پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل دہشتگردی کا مرکز ہے اور اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان تمام اقدامات کا مقصد دہشتگردوں کی حمایت ہے۔
شامی صدر نے کہا کہ مثال کے طور پر دیرالزور میں ہونے والا اسرائیلی حملہ، اس صوبے کے اندر داعشی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں شامی علاقے پر ترکی کے قبضے اور دہشتگردوں کو حاصل ترکی کی حمایت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کی حمایت کے حوالے سے ترکی کے اقدامات بھی ویسے ہی ہیں جیسے غاصب صیہونی رژیم کے ہیں حتی اس حوالے سے بعض اوقات تو "صیہونی دشمن" اور "اخوانی ترکی" کے درمیان فرق بھی نظر نہیں آتا۔
بشار الاسد نے دہشتگردوں کے خلاف اپنے دوٹوک موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف شامی حکومت و فوج کی جانب سے ہونے والے آپریشن میں اندرونی یا بیرونی دہشتگرد یا صیہونی و امریکی دہشتگرد کے درمیان کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔