‫‫کیٹیگری‬ :
26 November 2013 - 17:25
News ID: 6161
فونت
آیت‌ الله جوادی آملی :
رسا نیوز ایجنسی ـ حضرت آیت ‌الله جوادی آملی نے اس بیان کے ساتہ کہ کوئی بھی امور انجام نہیں پاتا مگر الہی قدرت کے ذریعہ ، خداوند عالم فاعلی و قاعدی نظر کے مطابق ہر انسان کی عمر کی مقدار معین کی ہے ۔
آيت‌الله جوادي آملي


رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر حضرت آیت ‌الله عبد الله جوادی‌ آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں علماء و طلاب کے درمیان اپنے تفسیر کے درس میں سورہ فاطر کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کوئی بھی امور انجام نہیں پاتا مگر الہی قدرت کے ذریعہ ، خداوند عالم فاعلی و قاعدی نظر کے مطابق ہر انسان کی عمر کی مقدار معین کی ہے ۔


آیت‌الله جوادی آملی نے آیہ « وَاللَّـهُ خَلَقَکُم مِّن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ أَزْوَاجًا» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : زمین واقعا مردہ ہے لیکن حیات کے قابل ہے ، جب پودے اس میں اگتے ہیں تو زندہ ہو جاتی ہے ورنہ خود بارش کے ذریعہ زندہ ہوتی ہے بلکہ اس میں حیات کی صلاحیت پائی جاتی ہے ، قرآن کریم مزید فرماتا ہے «خداوند عالم نے انسان کو خاک سے پیدا کیا ہے » شاید اس سے یہ مراد ہو کیونکہ حضرت آدم (ع) سے انسان وجود میں آیا ہے تب سب مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ، شاید اس سے مزید یہ مراد ہو کہ چونکہ انسان کی ضرورت مٹی سے پوری ہوتی ہے اس لئے انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ، اگر کوئی نظام ہستی کے بلندی پر جائے کہ جس زمین پر سات عرب لوگ زندگی بسر کر رہے ہین جو دو سو سال پہلے باغ میں تھے اور دو سو سال آئیندہ باغ اور فصل ہو جائے نگے ۔

انہوں نے آیہ «وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا یُعَمَّرُ‌ مِن مُّعَمَّرٍ‌ وَلَا یُنقَصُ مِنْ عُمُرِ‌هِ إِلَّا فِی کِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِکَ عَلَى اللَّـهِ یَسِیرٌ‌« کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نیز بیان کیا : کوئی بھی امور انجام نہیں پاتا مگر الہی قدرت کے ذریعہ ، خداوند عالم فاعلی و قاعدی نظر کے مطابق ہر انسان کی عمر کی مقدار معین کی ہے لیکن یہ عمر کا معین ہونا ضروریات پر منحصر ہے یعنی ایسا نیہں ہے کہ اگر کسی شخص کے لئے ایک عمر معین ہے تو بدلا نہیں جا سکتا بلکہ ضرورت کے مطابق ہے یعنی اگر موانع نہ پائے جائیں تو عمر طولانی بھی ہو سکتا ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور مفسر نے آیہ «وَمَا یَسْتَوِی الْبَحْرَ‌انِ هَـٰذَا عَذْبٌ فُرَ‌اتٌ سَائِغٌ شَرَ‌ابُهُ وَهَـٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِن کُلٍّ تَأْکُلُونَ لَحْمًا طَرِ‌یًّا وَتَسْتَخْرِ‌جُونَ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَ‌ى الْفُلْکَ فِیهِ مَوَاخِرَ‌ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُ‌ونَ» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : خداوند عالم اس آیہ میں فرماتا ہے ہم نے ایک میٹھے گوار پانی کا دریا و ایک نمکین پانی کا دریہ پیدا کیا ہے اور یہ دونوں دریہ ایک جیسے نہیں ہیں کیونکہ ان کے پانی میں فرق ہے لیکن اس کا فائدہ ایک ہے ۔ 
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬