03 March 2014 - 17:24
News ID: 6484
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اگر کوئی اور ملک ہوتا تو بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا مشغلہ کرنے والے باغیوں کی بستیوں کا صفحہ ہستی سے صفایا کردیتا۔ امریکہ ، جاپان، چین کوئی بھی ملک یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ جنونیوں کا ایک گروہ فساد فی الارض کرتا پھرے اور ریاست ان کی منت سماجت کرتی رہے۔
طالبان ڈاکٹر مرتضي? مغل


تحریر: ڈاکٹر مرتضیٰ مغل


عوام کی بھاری اکثریت کا خیال ہے اور دلائل اور منطق پر یقین رکھنے والے کہتے ہیں کہ ،


اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ آئین تو آئین ہوتا ہے۔ یہ ریاست اور عوام کے درمیان معاملات طے کرنے کا ایک فارمولا ہے۔ فرض کیا اس آئین میں کوئی شق بھی اسلامی نہ ہو تو کیا اس کے باسیوں کو قتل کرنا جائز ہو جائے گا؟ کیا  ریاست پاکستان اس بات کی اجازت دے گی کہ ایک گروہ اسلحہ اور بارود کے زور پر ریاست پر قبضہ کرے اور اس عمل کو شریعت کے عین مطابق قرار دے۔ کسی بھی ریاست کے آئین کو جو نہ مانے وہ باغی اور باغی کی داڑھی ہو یا مونچھیں وہ موت کی سزا پاتا ہے۔ اور جو ریاست ایسے گروہوں کو قرار واقعی سزا نہیں دے سکتی وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جو فوج اور سیکورٹی ادارے ریاست  سے باغیوں کا صفایا نہ کرسکیں ان پر اربوں روپے خرچ کرنے کا جواز کہاں سے لائیں گے ۔


اس طبقہ کے دانشور کہتے ہیں


آج سوال یہ ہے ہی نہیں کہ طالبان اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں یا دشمنوں کی اصل سوال پاکستان کی بقا اور سلامتی کا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خوارج پیدا ہوتے رہے ہیں اور خلافتیں ان خوارج کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر دراصل خوارج کا حملہ ہوچکا ہے۔ جو اس حملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے وہی سچا پاکستانی ہے ، وہی محب وطن شہری ہونے کا ثبوت دے رہا ہے باقی جو ہیں وہ باطل اور طاغوت کے ساتھ ہیں۔ چاہے ان کے جماعتی اور شخصی منشورآیات قرآنی سے ہی مزین کیوں نہ ہوں۔ اسلام تو اللہ کا دیا ہواسچا دین ہے۔ اس کی تعلیمات ہمیشہ انسانوں کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ۔ خطرہ پاکستان کو ہے۔ چند طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے حالات ایسے کردیئے جائیں کہ افغانستان میں بیٹھا ہوا امریکہ اورھندوستان اسلام آباد پر ہاتھ صاف کرلے۔  یہ طالبان نامی گروہ ایک منصوبے کے تحت ایسے ہی حالات پیدا کررہے ہیں ۔ یہ خارجی سوچ کے حامل گروہ پاکستان کے دشمن ہیں اور غیر ملکی طاقتوں کے لئے میدان صاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔


 بعض مذہبی جماعتوں کا خیال ہے کہ ،


طالبان کے ساتھ صرف اور صرف مذاکرات ہونے چاہیں کیونکہ آپریشن و بمباری سے اجتماعی نقصان ہوتا ہے ۔ وہ اس امر سے بھی خوفزدہ ہیں کہ آپریشن کی صورت میں طالبان گوریلا جنگ چھیڑ دیں گے اور پاکستان کے گلی محلے میں خون خرابہ شروع ہوجائے گا۔


اس گروہ کے پاس بھی مضبوط دلائل ہیں اور وہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں پر گولی چلانے کو طاغوتی سوچ قرار دے رہے ہیں۔


محب وطن اور محب اسلام پاکستانیوں سے میری التماس ہے کہ ہمیں رائے بناتے وقت قرآن  سے ہی رہنمائی لینی چاہئے اور جو گروہ جس قدر زیادتی کر رہا ہے اس کی اس حد تک مذمت ہونی چاہئے۔ جہاں طالبان کی فکری بے رہروی کا معاملہ ہے تو اس کے لئے حکومت کو علماء کا ایک وفد تشکیل دینا چاہئے جو قرآن و حدیث کی روشنی میں ان سے بات کرے اور ان کی نظریاتی اصلاح کرے۔


سوچ کو متوازن رکھنے کی ضرورت ہے


پاکستانی فوج کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ فوج اور رینجرز کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی بھی کریں۔ کیونکہ اگر ہمارے محافظ بھی دل چھوڑ بیٹھے تو پھر پاکستان نہ ختم ہونے والی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہو جائےگا۔ طالبان بھی جان لیں اگر یہ ملک ہی نہ رہا تو شریعت کہاں نافذ ہوگی۔ لاریب اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں لیکن  یہ ضروری ہے کہ طالبان بھی اسلام کی اصل روح کو سمجھیں اور عوام الناس کے جذبات کی بھی قدر کریں۔ یہ وقت انتہائی احتیاط برتنے اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر باہم دست و گریبان ہونے کا نہیں ہے ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬