رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مفسر وقت حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے اپنے سلسلہ وار تفسیر قران کریم کے درس میں سورہ مبارکہ زمر کی ایت «ٱللَّهُ یَتَوَفَّى ٱلْأَنفُسَ حِینَ مَوْتِهَا وَٱلَّتِى لَمْ تَمُتْ فِى مَنَامِهَا ۖ فَیُمْسِکُ ٱلَّتِى قَضَىٰ عَلَیْهَا ٱلْمَوْتَ وَیُرْسِلُ ٱلْأُخْرَىٰٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِکَ لَءَایَـٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ یَتَفَکَّرُونَ» کی جانب اشارہ کیا اور کہا : خواب آلودگی کی حالت نہ موت کی حالت ہے اور نہ ہی نیند کی حالت ، امام حسین علیہ السلام کے لئے بیان ہونے والی اکثر حالتیں خواب آلودگی کی حالتیں ہیں ، امام حسین علیہ السلام کا بین راہ کلمہ استرجاع پڑھنا اور امام چھارم زین العابدین علیہ السلام کو اس سے آگاہ کرنا کہ میں دیکھا کہ کوئی کہرہا ہے کہ موت اس قافلہ کا پیچھا کر رہی ہے یہ خواب آلودگی کی حالت ہے نیند نہیں ہے ، اس حالت میں انسان بیدار رہتا ہے اور ان باتوں کو دیکھتا یا سنتا ہے جسے دوسرے نہیں دیکھتے یا نہیں سنتے ہیں ۔
انہوں نے آیت «قُلِ ٱللَّهُمَّ فَاطِرَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ عَـٰلِمَ ٱلْغَیْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِ أَنتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِى مَا کَانُوا۟ فِیهِ یَخْتَلِفُونَ» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: خداوند متعال سب کچھ ہے اور اسی کے ہاتھوں میں مسند قضاوت ہے ، اس نے کیوں علم سے پہلے فاطر اور قدرت کا تذکرہ کیا ، وہ اس وجہ سے ہے کہ ہم اس سے قبل کہ خدا کے علم کو سمجھ سکیں، اس کی خالقیت اور اس کے فاطر ہونے کو سمجھ لیں اور آیت «أَنتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِى مَا کَانُوا۟ فِیهِ یَخْتَلِفُونَ» قیامت پر بہترین دلیل ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے بیان کیا : سورہ جن میں خداوند متعال نے فرمایا کہ «إِنَّ الَّذِینَ أَجْرَمُوا کَانُوا مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا یَضْحَکُونَ» دوسروں کی آبرو ریزی کرنے والے کی شاھدوں کے سامنے آبرو ریزی کی جائے گی اور اما اگر کسی نے کسی کی آبرو کی حفاظت کی تو قیامت میں اس کی آبرو کی بھی حفاظت کی جائے گی ، بد اعمالی کے باوجود خداوند متعال اس سے کچھ اس طرح پیش آئے گا کہ کوئی بھی اس سے با خبر نہ ہوسکے ۔
انہوں ںے مزید کہا: رسول اسلام سے منقول حدیث میں ہے کہ آنحضرت خداوند متعال سے دعا کریں گے کہ میری امت کے نامہ اعمال کا دوسروں کے سامنے حساب و کتاب نہ کر بلکہ فقط اسی بندہ کی موجودگی میں اس کا حساب و کتاب کر تاکہ دوسرے خوشحال اور میں شرمندہ نہ ہوسکوں ، تو جواب ملے گا کہ میں تیرے بعض بندوں کے ساتھ اس طرح پیش آوں گا کہ خود تو بھی آگاہ نہ ہو سکے ۔