رسا نیوز ایجنسی کی رھبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی خبر رساں سائٹ سے رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ہفتے کی شام تقریبا ہزار جوان طالب علموں سے دوستانہ ماحول میں ہونے والی ملاقات میں انکی مشکلات، مطالبات، تنقید اور تجاویز سنیں اور مختلف مسائل من جملہ آئیڈیلزم، طلبہ تنظیموں کے مزید موثر ہونے کے طریقوں، خطے کے مسائل، استکبار سے مسلسل مقابلے اور ملت ایران اور طالبعلموں کے روز مرہ کے مسائل پر گفتگو کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں کہ جو شام چھ بجے شروع ہوئی اور نماز و افطار کے بعد تک جاری رہی ماہ مبارک رمضان کےآخری ایام میں حسرت کی کیفیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کسی نے بھی اس معنویت اور صفا کی بہار میں اپنے دل کو رحمت و لطف الہی کی بارش کے زیر اثر قرار دیا ہے، وہ مستقبل میں اس معنویت کے پھلوں سے بہرہ مند ہو گا۔
آپ نے جوانوں کی جانب سے روح کو کمال بخشنے کے طریقے کے سلسلے میں ہمیشہ پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ معنوی رشد و کمال کے لئے سب سے اہم کام تقوی اور گناہوں سے پرہیز ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دینی وظایف خاص طور پر حضور قلب کے ساتھ اور حتی المقدور اول وقت با جماعت نماز ادا کرنے کو گناہوں سے پرہیز کرنے کا نسخہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس گرانبھا مجموعے کو ہر روز کم از کم چند آیات قرآن کی تلاوت کے زریعے زینت بخشیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وظایف دینی پر تاکید کرنے کے بعد طالبعلموں کے وظایف پر گفتگو کی۔
آپ نے طالبعلموں کے طبقے کو ممتاز طبقہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ طالبعلم کا اہم ترین وظیفہ آئیڈیلزم ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس فکر کو رد کرتے ہوئے کہ جو آئیڈیلزم کو حقیقت پسندی کے مخالف سمجھتے ہیں فرمایا کہ آئیڈیل بنانا تنگ نظری کے برخلاف ہے نہ کہ حقیقت پسندی کے۔
آپ نے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے تنگ نظری کو ہرحقیقت کے مقابلے میں تسلیم شدہ امر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آئیڈیلزم بزرگ اہداف تک پہنچنے کے لئے مثبت حقیقتوں سے صحیح استفادہ اور منفی حقیقتوں سے مقابلہ کرنے کا نام ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی معاشرے کے قیام اور سیاسی اسلام کی فکر کے احیاء کو اہم ترین اہداف میں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اعتماد بہ نفس کا ہدف اور ہم کر سکتے ہیں کہ مقولے پر اعتقاد بھی ملک و قوم کی ترقی و پیشرفت کے راستے کا تعین کرنے میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔
آپ نے تسلط پسندی کے نظام اور استکبار سے مقابلے کو ایک علم دوست معاشرے کا تیسرا ہدف قرار دیتے ہوئے اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ملت ایران سے عالمی بدمعاشوں کی دشمنی کی اصل وجہ اسلامی جمہوریہ کی جانب سے تسلط پسندانہ نظام کو قبول نہ کرنا ہے۔
آپ نے عدالت طلبی، اسلامی طرز زندگی، حقیقی حریت پسندی نہ کی مغربی، علمی ترقی و پیشرفت، محنت و مشقت اور سستی و کاہلی سے پرہیز اور یونیورسٹیوں کے اسلامی ہونے کو طلبا تنظیموں کے اہداف کے مصادیق قرار دیا۔
طالبعلموں کی اسٹریٹجی کے سلسلے میں ایک تشویش کے جواب میں کہ کس طرح آئیڈیلزم اور امنگوں کے زریعے ملک کے اعلی حکام کے فیصلوں پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے ؟ رہبر انقلاب اسلامی کا جواب بہت صریح اور تاکید کرنے والا تھا۔
آپ نے فرمایا کہ اپنی آرزووں کی تکرار کریں اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر ڈٹے رہیں تاکہ وہ طالبعلموں کے عمومی سوال میں تبدیل ہو جائے اور اسکے بعد عام افراد کا سوال بن جائے، اس وقت حکومتی اور سرکاری مراکز اور اعلی حکام اس کے زیر اثر آ جائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے مختلف اداروں پر طالبعلم طبقے کے اثرات اور اسکے میکنزم پر گفتگو کرنے کے بعد ان امور کے بارے میں گفتگو کی کہ جن پر طلبہ تنظیموں کا پابند رہنا ضروری ہے۔
آپ نے اسلامی مفاہیم پر سنجیدہ، دقیق اور عمیق کام کرنے کو طلبہ تنظیموں کے لئے سب سے پہلا ضروری امر قرار دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں بعض نعروں اور تقریروں پر بھی تنقید کی کہ جو بظاہر اسلامی ہیں لیکن انکے حقیقی معنی مختلف ہیں۔
آپ نے اس سلسلے میں ایک مثال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آجکل رائج رحمانی اسلام کی اصطلاح دو خوبصورت لفظوں سے بنی ہے لیکن اس کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ آیا اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے برخلاف کہ جس نے انسانوں کو مومن، کافر، دشمن اور دوست میں تقسیم کیا ہے کیا تمام انسانوں سے صرف اور صرف رحمت سے پیش آیا جائے؟ اور جو لوگ اسلام اور ملت ایران سے دشمنی برتتے ہیں خداوند متعال کے فرمان کے برخلاف ان سے محبت، مودت اور معدلت سے پیش آیا جائے؟
آپ نے اس طرح کی غیر سنجیدہ اور سطحی گفتگو کو غلط اور گمراہ کر دینے والا قرار دیا اور فرمایا کہ آیا رحمانی اسلام مغربی لبرل ازم کی پیداوار ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ اصطلاح نہ اسلامی ہے نہ رحمانی اور نہ ہی عاطفی، چونکہ لبرل ازم اومانزم پر مبنی فکر یعنی خدا اور معنویت کی نفی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے کہ جس کی بنیادیں طاقتوار افراد کے فائدے پر استوار ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اور ان مسائل پر تنقید کرتے ہوئے کہ جنہیں امریکی اقداروں کا نام دیا جاتا ہے فرمایا کہ تسلط پسند نظام کی سامراجیت کے تانے بانے انہیں امریکی اقداروں سے ملتے ہیں اور ان اقداروں میں موجود اچھے نکات، امریکی حکام کے جارحانہ کردار میں دکھائی نہیں دیتے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر رحمانی اسلام کی اصطلاح کا اشارہ ان مسائل کی جانب ہے تو یہ سو فیصد غلط ہے اور اس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد طلبہ تنظیموں کے ایک اور اہم اصول یعنی جاذبیت کی صلاحیت میں اضافے کی جانب اشارہ کیا۔
آپ نے طلبہ کے ماحول میں غلط طریقوں کے استعمال مثلا لڑکے لڑکیوں کی مخلوط سیر و تفریح اور موسیقی کے کنسرٹس کو جاذبیت میں اضافے کے نظریہ قرار دیئے جانے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ جوان طالبعلم لڑکے لڑکیوں کو جاذبہ ایجاد کرنے کے نام پر، مخلوط اور اسٹوڈنٹس ٹور کے نام پر یورپ لے جاتے ہیں وہ در اصل طالبعلمی کے ماحول اور حتی آئندہ نسل کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نئے اور تازہ دینی، سیاسی اور اجتماعی افکار و نظریات کو بیان کرنے کے ذریعے طلبہ تنظیموں کی جانب سے جاذبیت کی صلاحیت میں اضافے کے صحیح راستے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن اور نہج البلاغہ کا عمیق مطالعہ، نئی اور جذاب گفتگو کے امکانات کو فراہم کرتا ہے۔
مختلف ہنری روشوں مثلا تھیٹر، کارٹون، طنز و مزاح، آڈیو میگزین، بیت بازی کی محفلیں اور دوسرے بہت سارے طریقے تھے کہ جن کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی نے طلبہ تنظیموں کو نصیحت فرمائی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد طلبہ تنظیموں میں جذابیت کے تیسرے اصول یعنی فکری طور پر قانع کیا جانا اور دھونس و دھمکی سے پرہیز کئے جانے پر گفتگو فرمائی۔
آپ نے فرمایا کہ دینی افکار و نظریات کو قانع کئے بغیر دوسروں تک منتقل کیا جانا ناممکن ہے البتہ ممکن ہے کہ جوش و خروش اور احساسات کی وجہ سے بعض چیزوں کو قانع ہوئے بغیر قبول کر لیا جائے لیکن یہ قبول کرنا زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہے گا ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی میں مارکسسٹوں اور کمیونسٹوں کی جانب سے لوگوں کو قانع کئے بغیر اور اپنے عقائد زبردستی مسلط کئے جانے کے طریقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض یونی ورسٹیوں سے کبھی کبھار مارکسسزم کے دوبارہ سر اٹھانے کی خبروں کی اگر کوئی حقیقت ہے بھی تو یقیننا امریکی پیسہ اس عمل کے پیچھے ہے تاکہ طالبعلم تفرقہ کا شکار اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے طلباء تنظیموں کو نظام، ملک اور عوام کے لئے با اعتماد اساتذہ سے استفادہ کرنے اور غیر مطمئن افراد کے استفادے سے اجتناب برتنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ افراد کہ جنہوں نے سن 2009 کے فتنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور بغیر کسی منطق، اسلامیت اور جمہوریت کے نظام سے مخالفت کی وہ قابل اطمینان افراد نہیں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی حقائق کے فہم و ادراک کو طلبہ تنظیموں کے مثبت اثرات میں اضافے کا ایک اصول قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ حکام بالا سے زیادہ سے زیادہ محنت و کوشش کی توقع رکھنا درست ہے لیکن مثبت حقائق کا مشاہدہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اہداف کے مزید واضح ہونے اور بعض عناصر کی جانب سے امام خمینی رح کے اہداف اور آرزوں کو محو کرنے اور انہیں کنارے لگانے کو ملک کے قابل توجہ حقائق میں سے ایک قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ امام راحل کی وفات کے بعد ، بعض افراد نے ایک غلطی کی وجہ سے اپنے پوشیدہ اہداف کو امام بزرگوار کے اہداف کو محو کرنے کے لئے آشکار کردیاتھا لیکن اب چونکہ وہ تجربہ کار ہو چکے ہیں اس لئے علی الاعلان بات نہیں کرتے لیکن عمل ضرور کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان چند افراد کی اندرون ملک اور بیرون ملک مسلسل کوششوں اور فکری، سیاسی اور ہنری عناصر کے استعمال کے باوجود ملک میں آرزووں اور اہداف کی نشاط و حیات اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے اور وہ جوان کہ جنہوں نے حتی امام راحل اور مسلط کردہ جنگ کے حقائق کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام اور انقلاب کے آرزووں میں جذب ہو گئے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے میں ایران کی معنوی اور حیرت انگیز موجودگی اور اثر و رسوخ کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے طلبہ تنظیموں کو اس طرف توجہ کرنے کی نصیحت کی۔
آپ نے فرمایا کہ ہمیں خبر ہے کہ امریکی اور خطے کی کنزرویٹو طاقتیں اپنے خفیہ اجلاسوں میں خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ پر ایک دوسرے سے درد دل کرتے ہیں لیکن وہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یمن پر سو دنوں سے جاری بمباری اور مظلوم و بے گناہ عوام کے وحشیانہ قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لبرل اور آزادی پسند مغرب نے سعودی جارحیت پر منہ تک نہیں کھولا اور سلامتی کونسل نے اپنی ایک شرمناک قرارداد میں بم برسانے والوں کے بجائے بم کا شکار بننے والوں کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔
آپ نے یمن کے عوام کے گھروں پر بمباری کو ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے خلاف سعودی عرب اور اسکے حامیوں کے غم و غصے کو قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ دعوں کی برخلاف خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ نعمت خداوندی ہے، نہ کہ اسلحہ اور اپنی طاقت پر تکیہ کرنا، اور ہم شہید بہشتی کی طرح ملت ایران کے دشمنوں کو یہی کہیں گے کہ وہ اسی غم و غصے میں ہلاک ہو جائے۔
رہبر انقلاب نے طلبہ تنظیموں کو خطے کے مسائل من جملہ یمن، عراق اور شام کے مسائل پر کام کئے جانے کی نصیحت فرماتے ہوئے انتخابات کے زمانے میں مختلف طلبہ تنظیموں کے بنائے جانے اور اس سے استفادہ کئے جانے کو طالبعلموں کے لئے توہین گردانتے ہوئے فرمایا اس طرح کی عارضی تنظیموں سے جدائی اختیار کر کے، اسلامی تنظیموں اور ان میں دلچسپی رکھنے والے افراد ملک کی ترقی اور پیشرفت میں مفید اور با اثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک طالبعلم کی جانب سے انقلابی اسٹوڈنٹس تنظیموں کے ساتھ سخت رویہ اپنائے جانے پر تنقید کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے وزیر تعلیم اور وزیر صحت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان انقلابی اور اسلامی اسٹوڈنٹس تنظیموں کی بات اور مطالبات ہماری بات اور ہمارے مطالبات ہیں اور جو افراد یونی ورسٹیوں میں مختلف اہم عہدوں پر موجود ہیں انہیں چاہئے کہ مطلقا ان تنظیموں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنائیں اور نہ ہی انکی سرگرمیوں کو محدود کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایک طالبعلم کی جانب سے یونی ورسٹیوں میں علمی پیشرفت میں رکاوٹ بننے والے بعض مسائل بالخصوص موسیقی کے کنسرٹس کے انعقاد پر تنقید کو بجا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ طالبعموں کے ماحول کو اس طرح کے کاموں کے ذریعے نشاط اور تازگی دینا انتہائی غلط کاموں میں سے ایک ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی بیمار فضا کی جانب جوانوں کو مائل کرنے کو دشمن کا پروگرام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج ملک میں انتہائی حساس اور اہم موضوعات من جملہ ایٹمی توانائی اور نینو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں فخریہ علمی پیشرفت و ترقی کے پیشرو مومن اور انقلابی جوانان تھے اور ہیں اور ہمارے دشمن چاہتے ہیں ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر چمران جیسے جوان یونی ورسٹیوں میں تربیت حاصل نہ کر پائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی کہ وزیر تعلیم اور وزیر صحت دونوں میرے با اعتماد افراد ہیں لیکن انہیں اس بات کا دھیان رہے کہ ان کے اداروں میں کام کرنے والے دوسرے افراد کہیں طالبعلموں کو غلط کاموں اور غلط پروگراموں کے ذریعے انقلاب، اسلام اور معنویت سے دور نہ کر دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طالبعلموں کی جانب سے حقیقی معنی میں فکری آزادی کے ڈیسک کے قیام کے نکتے کی جانب خاص طور پر اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس کام کی پوری طرح توثیق کرتا ہوں اور آج اس سلسلے میں بہت زیادہ توانائی موجود ہے کہ مسلمان انقلابی، ولائی، جوان طالبعلم پرسکون انداز میں اپنی منطق اور استدلال کی قدرت و طاقت کے بل بوتے پر مخالفین کے اعتراضات کو باطل کردے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بعض نمائندوں کی گفتگو اور انکی جانب سے ان نظریات کو رہبر معظم کے نظریات قرار دینے سے متعلق ایک طالبعلم کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ان افراد کی باتیں انکی اپنی باتیں ہیں، میری باتیں خود مجھ سے سنا کریں۔
آپ نے فرمایا کہ رہبر کی جانب سے منصوب افراد حتی ممکن ہے کہ بعض سیاسی اور سماجی مسائل میں میرے نظریات سے اختلاف رکھتے ہوں کہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، کیونکہ اصل مسئلہ انقلابی اور کلی مسائل سے واقفیت ہے۔
رہر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ البتہ اگر کوئی میری بات کے کسی نکتہ کو اسکی حقیقت کے برخلاف بیان کرے تو اسے وارننگ دی جائے گی اور اس سے تقاضہ کیا جائے گا کہ وہ اس مطلب کی اصلاح کرے۔
ایٹمی مذاکرات کے بعد استکبار سے مقابلے کی کیفیت ایک طالبعلم کی جانب سے پوچھا گیا اگلا سوال تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں تاکید کے ساتھ فرمایا کہ قرآنی احکامات کے نتیجے میں استکبار اور ظلم کے نظام کے خلاف جدوجہد کبھی نہیں رکے گی اور آج امریکا استکبار کا کامل ترین مصداق ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ہم نے مذاکراتی ٹیم سے بھی یہ کہا ہے کہ آپ صرف ایٹمی مسئلہ پر ہی گفتگو کا حق رکھتے ہیں باوجود اس کے کہ امریکی حکام بعض اوقات خطے کے مسائل من جملہ شام اور یمن کے مسائل کو بیچ میں لے آتے ہیں، وہاں پر مذاکراتی ٹیم کہے کہ ہم اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار سے جنگ ایک اساسی کام اور انقلاب کے مفاہیم کا ایک جزء ہے۔ بنا بر ایں اپنے آپ کو اس جنگ کے لئے آمادہ کریں۔
ایک طالبعلم نے رہبر انقلاب اسلامی سے درخواست کی کہ والدین کو جوانوں کے شادیوں کے مسئلے میں آسانی پیدا کرنے کی نصیحت کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے والدین کو اس مسئلے میں سختی سے کام نہ لینے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ خداوند نے قرآن میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ شادی کے بعد اپنے فضل و کرم سے جوانوں کو غنی اور انکی مشکلات کو برطرف کر دے گا۔
آپ نے رشتہ لے کر جانے اور لڑکے لڑکیوں کے انتخاب میں واسطہ بننے کو قابل ستائش رسم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جوانوں کی شادیوں کی مشکلات کا حل کیا جانا ملک اور سماج کے دنیاوی اور اخروی فائدے میں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں افزائش نسل کے اہم مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے اور قانون پر صحیح طریقے سے عملدرآمد نہ ہونے بالخصوص زچگی میں رکاوٹ جیسے مسائل کے بارے میں وزیرصحت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مسئلے کی تحقیق کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طالبعلموں سے ملاقات پر گہری خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے، ملک کے مختلف مسائل میں طالبعلموں اور جوانوں کی جوش و جذبے اور توانائی سے بھرپور شرکت کو بعض اداروں کی ان رپورٹوں کے مقابلے میں اہمیت کا حامل قرار دیا کہ جن میں ایرانی جوانوں میں پژمردگی کی سطح کا ذکر کیا گیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ سراسر جھوٹ اور خباثت پر مبنی ہے تاکہ اس بہانے سے بے ہودہ آزادی کی تجویز دی جا سکے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی جوانوں کو دنیا کا سب سے زیادہ فعال، سرگرم اور با نشاط جوان قرار دیتے ہوئے یورپی نوجوانوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی سطح کو مغرب میں پائی جانے والی پژمردگی کی وجہ قرار دیا۔
آپ نے چند سال پہلے ایک یورپی جوان کے ہاتھوں تقریبا 80 معصوم بچوں کے قتل عام اور اسی طرح خودکش حملوں کے ذریعے خودکشی کرنے کے لئے داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو یورپی نوجوانوں کی پژمردگی قرار دیتے ہوئے اس کے مقابلے میں تاکید کی کہ وہ ایرانی جوان جو روزہ رکھ کر، شب قدر میں جاگ کر رات گذارنے کے بعد گرمیوں کے ان شدید گرم دنوں میں یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے سرگرم، فعال اور بانشاط ہے اور پژمردگی سے میلوں دور ہے۔
اس ملاقات کی ابتدا میں مختلف طلبہ تنظیموں کے 9 اراکین
علی پہلوان کاشی۔ اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے سیکرٹری
کیوان عاصم کفاش۔ اسلامک آزاد یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹوڈنٹ اسمبلی کے سیکرٹری جنرل
وحید زارع۔ بسیجی اسٹوڈنٹس کی پوزیشن وضع کرنے والی شورا کے ممبر
ہادی ذوالفقاری۔ اسلامک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن علامہ طباطبائی یونی ورسٹی کے سیکرٹری
میکائیل دیانی۔ آزاد طالبعلموں کی اسلامک ایسوسی ایشنز کی یونین کے سیکرٹری
علی مہدیان فر۔ اسلامک آزاد یونی ورسٹی شعبہ شمال کے بسیجی اسٹوڈنٹس کے آفیشل انچارج
حسین شہبازی زادہ۔ عدالت طلب اسٹوڈنٹس موومنٹ کے سیکرٹری
زینب السادات حسینی۔ ادارہ تحکیم وحدت کی مرکزی کابینہ کی ممبر
صبا کرم۔ میڈیکل جہاد گروپ نجف ہیڈکوارٹر کی انچارج
نے اپنے مطالبات، تنقیدیں اور تجاویز پیش کیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
طالبعلموں سے اعلی اداروں کے سربراہان کا زیادہ سے زیادہ رابطہ
ملک میں ثقافتی انحرافات کے سدباب کے لئے تھنک ٹینک کا قیام
ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل میں جوانوں کا انتخاب اور اس کونسل میں طلبہ تنظیموں کے کوٹے کا اجرا
اسکالر شپ کے مسئلے کی ذمہ داروں سے قانونی چارہ جوئی
عالمی سطح پر ایرانی یونی ورسٹیوں کے معیار کو گرانے سے بچانے کے لئے مسلسل جدوجہد
عدلیہ کی جانب سے مالی فساد سے بچائو کے لئے بھرپور اقدامات
مذاکراتی ٹیم کے امریکہ کی زیادہ خواہی کے سامنے ڈٹ جانے اور ملی منافع کی حفاظت کرنے کی حمایت
نالج بیسڈ اکنامی پر توجہ
اعلی عہدوں سے فتنہ گر عناصر کا خراج
سیاسی اختلافات سے گریز کے ذریعے معاشرے سے ذہنی دبائو کم کرنے کے لئے کوششیں
امام جمعہ و جماعت سے بہترین استفادے اور ائمہ جمعہ کی سیاسی پارٹیوں میں سرگرمیوں کی ممانعت
داخلی توانائی پر اکتفا اور اقتصادی مشکلات و مسائل سے باہر نکلنے کے لئے جہادی اقدامات
سیاسی، ژقافتی اور اقتصادی میدانوں میں امام کے اہداف میں تحریف کا سدباب کرنے کی ضرورت
یونیورسٹیوں میں ثقافتی معاملات میں فتنہ گروں کی مداخلت کو قدغن قرار دیا جانا
انقلاب کی پہلی نسل کے تجربات کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا
ملک کی ڈپلومیٹک توانائیوں کو امریکا سے مذاکرات اور ایٹمی موضوع تک محدود کرنے پر تنقید
ملک کی موجودہ شرائط کو امام حسن علیہ السلام کی صلح کی شرائط سے ملائے جانے پر تنقید
اعلی حکام کی جانب سے معاشرے کے مسکین اور محروم طبقے کی جانب سنجیدگی سے توجہ کیا جانا