رسا نیوز ایجنسی کی رھبر انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائٹ سے رپورٹ کے مطابق، رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ روز ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور دیگر ملکوں میں تعینات ایران کے سفیروں اور اعلی سفارت کاروں سے ملاقات میں شام، یمن اور بحرین کے بحرانوں سمیت علاقائی مسائل کے بارے میں ایران کی منطقی اور محکم راہ حل کی تشریح کرتے ہوئے زور دیکر فرمایا: "علاقے میں امریکا اور ایران کے اہداف میں 180 ڈگری کا فرق ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی وہی ہے جس کا ذکر آئین میں اسلامی نظام کی خارجہ پالیسی کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "یہ خارجہ پالیسی اسلام سے ماخوذ اور انقلاب کے اعلی اہداف و مقاصد پر استوار ہے اور وزارت خارجہ کے عہدیداران، سفرا اور ناظم الامور در حقیقت ان اصولوں اور اعلی اہداف کے نمائندے، سپاہی اور خدمت گزار ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا: "دنیا کے تمام ملکوں کی طرح وطن عزیز کی خارجہ پالیسی بھی دراز مدتی مفادات اور اصولوں اور اقدار پر استوار ہے، یہ الگ الگ سیاسی رجحان کی حکومتوں کے آنے اور جانے سے تبدیل نہیں ہوتی، حکومتیں صرف خارجہ پالیسی کے اصولوں سے متعلق اجرائی طریقوں اور جدت عملی میں دخیل اور اثر انداز ہوتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: "الگ الگ حکومتوں کے دور میں سفارت کاری کی ہر ٹیکٹک سے آئین میں معین شدہ خارجہ پالیسی کے اصولوں کی خدمت ہونی چاہئے اور بیرون ملک ایران کے سیاسی نمائندوں کو چاہئے کہ خود کو اسلامی نظام کی پالیسیوں کا منطقی اور سنجیدہ محافظ اور نمائندہ تصور کریں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی میں مجبورا یا مرضی کے تحت پیدا ہونے والی مبینہ تبدیلی کے بارے میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "مغربی ملکوں کا خوش فہمی پر مبنی یہ تجزیہ اصل میں اس حقیقت کے دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کم از کم علاقے کی سطح پر توسیع پسند طاقتوں بالخصوص امریکا کی ریشہ دوانیوں کے سامنے کسی چٹان اور مضبوط حصار کی مانند سد راہ بنی ہے، چنانچہ امریکیوں کی ہمیشہ سے آروز رہی ہے کہ یہ پالیسیاں تبدیل ہو جائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مغربی ایشیا کے انتہائی حساس خطے میں امریکیوں کی پالیسیاں علاقے میں پھیلے انتشار کی بنیادی وجہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا بعض افراد کے تصور کے برخلاف علاقے کی مشکلات کا بنیادی جز ہے، مشکلات کے حل کا جز نہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کسی ایک شخصیت یا ایک رہنما کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ آئین کے پائیدار اصولوں پر استوار ہے۔ آپ نے فرمایا: "دستور میں اسلام خارجہ پالیسی کا سرچشمہ ہے، لہذا مختلف ملکوں اور مسائل کے بارے میں اختیار کیا جانے والا موقف دینی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آئین میں خارجہ پالیسی کے لئے معین دوسرے اصولوں منجملہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے سلسلے میں برادرانہ احساس ذمہ داری، دنیا کے مستضعفین کی بے دریغ مدد، تمام میدانوں سے استعمار کی بے دخلی اور اغیار کے غلبے کا سد باب، ہمہ جہتی خود مختاری کی حفاظت، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، توسیع پسند طاقتوں سے کوئی عہد و پیمان نہ کرنا، دشمنی نہ برتنے والی حکومتوں سے مفاہمت آمیز روابط، قوموں کے داخلی امور میں ہر طرح کی مداخلت سے اجتناب، دنیا کے ہر خطے میں استکباری طاقتوں کے خلاف مستضعفین کی حق بجانب جدوجہد کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان جدید، پرکشش اور اعلی درجے کے اصولوں نے قوموں بالخصوص دانشوروں کے ذہنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: "ان خصوصیات اور اس حکمت عملی کی حامل اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی انقلابی خارجہ پالیسی ہے اور اگر اس کے نفاذ میں مدبرانہ طریقوں کا استعمال کیا جائے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے اور ان کے اندر عالم اسلام کی بیشت مشکلات کے حل کی صلاحیت موجود ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کے نفاذ کے بعض مثبت نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام میدانوں منجملہ سفارتی شعبے میں انقلابی پالیسیوں پر عمل آوری، قوت اور اثر و رسوخ میں اضافے، قوموں کے درمیان ملک کے مقام و منزلت اور ایرانیوں کی عزت و اعتبار کے ارتقا کی باعث ہوگی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خارجہ پالیسی کے پائیدار اصولوں پر ہمیشہ عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ہم یہ دعوی تو نہیں کرتے کہ ہم نے اپنے تمام اہداف حاصل کر لئے یا ان کے قریب پہنچ چکے ہیں، کیونکہ کچھ غفلتوں، کوتاہیوں، بے تدبیری اور بیرونی رکاوٹوں کی وجہ سے عملی طور پر انقلابی خارجہ پالیسی کے نفاذ میں مشکلات رہی ہیں، لیکن وطن عزیز کا موجودہ باوقار مقام انھیں حکیمانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اگر ہم نے ان اصولوں پر عمل نہ کیا ہوتا تو خدا ہی جانتا ہے کہ ملک کے اندر ہمیں کیسی مشکلات اور کیسے عجیب و غریب مسائل سے دوچار ہونا پڑتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت خارجہ کے عہدیداروں، سفیروں اور ناظم الامور کی حیثیت سے تعینات سفارت کاروں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ خارجہ پالیسی کے انقلابی اصولوں اور مستقل حکمت عملی کا استحکام و افتخار کے ساتھ اور مقتدرانہ انداز میں ذکر کیجئے تاکہ اغیار اور ملک کے اندر موجود ان کے پیروکار اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے تعلق سے کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں خارجہ پالیسی کے اصولوں اور حکمت عملی کے لوازمات کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ توجہ رکھئے کہ خارجہ پالیسی کی ہر ٹیکٹک بنیادی اصولوں اور حکمت عملی کی مددگار بنے، ایسا نہ ہو کہ ٹیکٹک کے نام پر اصولوں کے خلاف عمل کیا جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مخالف عوامل اور رکاوٹوں کا سامنا ہونے پر خود اعتمادی، صراحت اور استحکام کے ساتھ اقدام کرنے کو خارجہ پالیسی کا ایک اور اہم تقاضا قرار دیا اور فرمایا کہ سفارت کاری کا فن یہ ہے کہ آپ اپنا نظریہ اور موقف اس طرح بیان کریں کہ اس کا اثر ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ علاقائی مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کی منطقی روش بہت محکم اور سب کو پسند آنے والی ہے۔ آپ نے علاقائی مسائل کے بارے میں ایران کی جانب سے پیش کردہ راہ حل کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کی مکمل نفی اور اس حکومت کے روزمرہ کے مجرمانہ اقدامات کی شدید مذمت کرنے کے ساتھ، تمام فلسطینیوں کی شرکت سے انتخابات کرائے جانے کی تجویز پیش کی جو دنیا میں موجود تمام اصولوں پر پوری اترتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فلسطینی قوم کے ووٹوں کے نتیجے میں جو حکومت تشکیل پائے وہی صیہونیوں اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والوں کے بارے میں فیصلہ کرے۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ البتہ ہماری منطقی تجویز کے جواب میں کچھ لوگوں نے کہا کہ 'اس کا مطلب غاصب حکومت کی سرنگونی ہے' تو ظاہر ہے اس جعلی حکومت کو سرنگوں ہونا ہی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شام کے سلسلے میں کہا کہ اس مسئلے میں ہمارا موقف سب سے مدلل موقف ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ چیز بے معنی ہے کہ دوسرے ممالک آپس میں جمع ہوں اور کسی حکومت اور اس کے سربراہ کے بارے میں فیصلہ کریں، یہ خطرناک بدعت ہے جسے دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے بارے میں قبول نہیں کریگی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ مسئلہ شام کا حل انتخابات کا انعقاد ہے اور اس کے لئے مخالفین کو ملنے والی مالیاتی اور عسکری مدد بند کی جائے اور جنگ و بدامنی کا خاتمہ ہو تاکہ شام کے عوام پرامن حالات اور پرسکون ماحول میں جسے چاہیں منتخب کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکوں کی تقسیم اور انھیں چھوٹی چھوٹی قومیتی یونٹوں میں بانٹے جانے کی فکر کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ اہم فیصلوں اور حکومت کی تشکیل کے لئے کسی ایک مسلح گروہ کو مرجع قرار دینا منطقی اور قابل قبول نہیں ہے اور اس طرح کے فارمولے عملی طور پر جنگ کا سلسلہ جاری رہنے کا باعث بنیں گے۔
عراق کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس ملک کو شیعہ عرب، سنی عرب اور کرد علاقوں میں تقسیم کرنا عوام کے مفادات کے منافی، ناقابل عمل، بے معنی اور غیر قابل قبول تجویز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عراق کی ارضی سالمیت اور عوام کے ووٹوں کو معیار قرار دینا عراق کے سلسلے میں بہترین راہ حل ہے۔
یمن کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ سعودی عرب کے مجرمانہ حملوں کا فوری طور پر بند کیا جانا اور یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز اس ملک کے اندر جاری تصادم کو ختم کر سکتا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یمن اور شام میں سعودی عرب کا دوہرا رویہ ہے؛ وہ یمن کے بارے میں سعودی حکام کہتے ہیں کہ یمن کے مستعفی اور مفرور صدر کی درخواست پر اس ملک میں انھوں نے فوجی مداخلت کی ہے، لیکن شام کے بارے میں اس ملک کے قانونی صدر کی درخواست پر مسلح مخالفین کی پشت پناہی بند کرنے پر وہ آمادہ نہیں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بحرین کے سلسلے میں فرمایا کہ بحرین کے عوام ووٹ دینے اور انتخابات کے حق کے علاوہ کچھ نہیں مانگ رہے ہیں اور ہم اس مطالبے کو منطقی و معقول سمجھتے ہیں۔
علاقائی مسائل کے لئے ایران کی راہ حل کا ذکر کرنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس بدامنی کی اصلی وجہ امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت ہے اور یہ پالیسی اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی سے 180 درجہ اختلاف رکھتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علاقائی مسائل کے بارے میں امریکا سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکام مسائل کے حل نہیں بلکہ اپنے مفادات مسلط کرنے کی کوشش میں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے ساٹھ ستر فیصد مطالبات مذاکرات میں مسلط کر دیں اور بقیہ اہداف کو غیر قانونی طریقے سے عملی طور پر مسلط کریں، تو پھر مذاکرات کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے ہمسایہ ممالک، اسلامی ممالک اور افریقی ملکوں سے روابط کے دائمی فروغ کو خارجہ پالیسی کے لوازمات کا جز قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی میدانوں میں اگلے محاذوں کے سپاہی اور مجاہد جیسے القاب، وزارت خارجہ کے کارکنان اور عہدیداران کے پیشے کے شایان شان ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وزارت خارجہ اپنے اہداف و فرائض کے پیش نظر پوری طرح فعال ہے اور خاص طور پر ایٹمی مذاکرات کے حالیہ تجربے میں جناب ڈاکٹر ظریف اور ان کے رفقائے کار نے بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جوہری مذاکراتی ٹیم کی تندہی اور سنجیدہ کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی طاقت کا احساس، دنیا کی چھے قوتوں کے مقابل بیٹھنا، اپنے اہداف کا دفاع اور فریق مقابل کے سامنے اپنی پوزیشن کو مضبوط رکھنا، جوہری مذاکرات میں ہمارے ملک کی مذاکراتی ٹیم کے مثبت پہلو تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دینداری جناب ظریف کی بہت اہم خصوصیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بار بار آپ عزیزوں کے لئے دعا کرتا ہوں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل آوری کے سلسلے میں بھی مطلوبہ نکات کو مد نظر رکھئے کیونکہ ان امور کی انجام دہی امکان میں ہے، جیسا کہ صدر محترم نے اس حقیر سے کہا کہ بعض نتائج کا حصول شروع میں قابل یقین نہیں تھا لیکن آپ نے استقامت دکھائی اور ہم بھی ڈٹ گئے تو ان نتائج کا حصول ممکن ہو گیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں بیرون ملک تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیروں اور نمائندوں کو کچھ سفارشات کیں، جن میں قومی اقتدار و قوت کے عوامل منجملہ ملک میں عوام کے فیصلہ کن اور نمایاں کردار، بڑی تعداد میں جوان، ممتاز اور کارآمد افرادی قوت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی پر تکیہ کرنے، نیز دینی اصولوں اور انقلابی جذبات سے سفیروں اور نمائندوں کی گہری وابستگی، ناوابستہ ملکوں کی صلاحیتوں سے استفادہ اور مستحکم مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے موثر انداز میں کردار ادا کرنے کی سفارشات شامل تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے علاقے کے حساس حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب کی جانب سے دئے گئے احکامات اور طے کئے گئے خطوط وزارت خارجہ کی کارکردگی کی بنیاد رہے ہیں اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل ہو جانے کے بعد بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل آوری سے متعلق صدر مملکت کے نام رہبر انقلاب کا مکتوب عمل کی بنیاد قرار پائے گا۔
ڈاکٹر جواد ظریف نے اغیار کے اثر و نفوذ کو روکنے اور مزاحمتی معیشت جیسے امور پر وزارت خارجہ کی پوری توجہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سفرا اور ناظم الامور کے فرائض انجام دینے والے سفارت کاروں کی اس سال کی کانفرنس میں ہماری کوشش ہوگی کہ مزاحمتی معیشت کے اہداف کو آگے لے جانے، علاقے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کو تقویت پہنچانے اور مغربی ایشیا کے مسائل کو اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسیوں کے تناظر میں حل کرنے کے لئے موجودہ حالات سے استفادہ کیا جائے۔