20 February 2017 - 12:34
News ID: 426430
فونت
سیہون شریف پر ہونیوالے تازہ حملے کے فکری و عملی پس منظر کو سمجھے بغیر ایسے واقعات کی روک تھام نہیں ہوسکتی اور اگر روک تھام ضروری ہے تو ’’متبادل بیانیہ‘‘ بھی ضروری ہے۔ وہی متبادل بیانیہ جس کا ذکر پاکستان کے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ میں کیا گیا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو وزارتیں اور وزارتوں کے جو افسر پاکستان میں جس طرح کے مذہبی عناصر کیساتھ ملکر جس قسم کا ’’بیانیہ‘‘ تیار کرنیکی طرف گامزن ہیں، وہ آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کریگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس بیانیے کی تیاری میں برصغیر کی مذہبی روایت اور رائج مذہبی رسوم کو کنٹرول کرنیکے نام پر انکی روک تھام کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس روک تھام کیلئے اب سرکاری طاقت کو بروئے کار لایا جائیگا۔ گویا پہلے جو کام غیر سرکاری عناصر اپنی طاقت سے انجام دے رہے ہیں، اب وہی کام ’’قانون، عدلیہ اور انتظامیہ کی طاقت‘‘ سے انجام دینے کی پالیسی اختیار کی جائیگی۔
ثاقب اکبر


 تحریر: ثاقب اکبر

دہشت گردی جو ایک عالمی مظہر (Phenomena) کا روپ دھار چکی ہے، اس کی وجوہات پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی استعماری طاقتوں کی پشت پناہی اور سازشوں کے تانوں بانوں نے اسے جس طرح منظم، کنٹرول اور مضبوط کر رکھا ہے، اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی استعمار کی ایجنٹ ریاستیں یا ریاستی عناصر کی اپنی اپنی ضروریات ہیں، اس سے بھی انکار نہیں، جبکہ دہشت گردی کی مختلف صورتیں اور ان کے آلہ کاروں کی مختلف ذہنیتیں بھی اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ انہیں میں انبیاء، اولیاء اور صوفیاء کی قبور و مزارات پر حملے بھی ایک خاص ذہنی پس منظر کی غمازی کرتے ہیں۔ عالمی اور مقامی طاقتیں ان ذہنیتوں اور فکری پس منظر کو اپنے مقاصد کے لئے بروئے کار لاتی ہیں۔ جدید تاریخ میں بزرگان دین کے مزارات و قبور کے انہدام کا سلسلہ شدت پسند مذہبی فکر کے ہاتھ میں عالم اسلام کے نہایت اہم مراکز کا اقتدار منتقل ہونے سے شروع ہوا۔ اس کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ شدت پسند جنونی ذہنیت عالمی استعمار کی ضرورت بھی تھی اور آج بھی ہے۔ پاکستان میں اکابر صوفیاء کے مزارات پر ہونے والے حملوں کو اس عالمی صورت حال سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔

شیعہ سنی اختلاف کی جڑیں تو قدیم اسلامی تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے اثرات برصغیر میں بھی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اقتدار و منصب کی ہوس اور دنیاوی ثمن قلیل کی طلب کبھی کم اور کبھی زیادہ اثرات مرتب کرتی رہتی ہے اور شیعہ و سنی اختلاف کو بھڑکانے والے عناصر اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں، لیکن صوفیاء اور اولیاء کے مزارات پر حملہ اور ان پر دہشت گرد کارروائیوں کا سلسلہ ہمارے ہاں نسبتاً نیا ہے۔ یہ ذہنیت تو مشرق وسطٰی ہی سے منتقل ہوئی ہے، تاہم سامراجی اثرورسوخ کے فروغ کے لئے جب دہشت گردی کو توسیع دینے کا مرحلہ آیا تو ایسی کارروائیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ سیہون شریف میں رونما ہونے والا نیا المناک سانحہ اس کی ایک کڑی ہے۔ برصغیر کی اسلامی روایت انہی صوفیاء و اولیاء کرام سے جڑی ہوئی ہے۔ صوفیاء نے جب مرکزی ایشیا سے افغانستان اور اسی طرح ایران سے برصغیر کی طرف رُخ کیا تو انھوں نے ہندو سماج، اس کی روایات، یہاں کی نسلی تقسیم اور استحصالی نظام کا گہری نظر سے جائزہ لیا۔ عوام کی پس ماندگی، خستہ حالی و اس میں مذہبی فکر اور مذہبی اجارہ داری کی کارفرمائی کا بھی مطالعہ کیا۔ اس کے مقابلے میں مساوات انسانی کے توحیدی نظریئے، انسان دوستی کے الٰہی تصور اور انسان کی روحانی حقیقت کے پیغام کو اس دھرتی کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اجاگر کرنے کے لئے خاص رنگ، ڈھنگ اور اسلوب اختیار کئے۔ یہ اسلوب اگرچہ مختلف صوفیاء کے ہاں کچھ مختلف بھی دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے باطنی جوہر میں مشترک نکات وہی ہیں، جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔

ہوا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہب کی وہ روایت ’’مذہبی علم‘‘ کے نام پر منتقل ہونے لگی، جسے حرفیت پسندی اور ایک خاص دور اور خطے کے ثقافتی مظاہر کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ مذہب یا دین کی روایت جب اپنے باطنی، آفاقی اور اعلٰی اخلاقی و ایمانی مقاصد سے منقطع ہو جائے تو پھر وہ رجعت پسندی کے انہی مظاہر میں محدود ہو جاتی ہے، جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ رفتہ رفتہ فطری گہرائی سے خالی سطحی مذہبی تصورات میں شدت پسندی کا عنصر بھی داخل ہوتا گیا اور مد مقابل کے لئے سخت شدت پسندانہ مذہبی اصطلاحیں بروئے کار آنا شروع ہوگئیں۔ اب مدمقابل گمراہ، منحرف، کافر اور مشرک ہوتے چلے گئے۔ پھر ان گمراہوں، منحرفوں، کافروں اور مشرکوں کے خلاف جنگ بھی ضروری ہوتی گئی۔ لفظی جنگ نے فتوے کی زبان اختیار کر لی اور فتووں کی شدت نے عمل کی شدت کے لئے راہ ہموار کی۔ اس ساری صورت حال کو ’’آگ‘‘ مہیا کرنے کے لئے عالمی ’’انسان دوست‘‘ قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔

سیہون شریف پر ہونے والے تازہ حملے کے فکری و عملی پس منظر کو سمجھے بغیر ایسے واقعات کی روک تھام نہیں ہوسکتی اور اگر روک تھام ضروری ہے تو ’’متبادل بیانیہ‘‘ بھی ضروری ہے۔ وہی متبادل بیانیہ جس کا ذکر پاکستان کے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ میں کیا گیا ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو وزارتیں اور وزارتوں کے جو افسر پاکستان میں جس طرح کے مذہبی عناصر کے ساتھ مل کر جس قسم کا ’’بیانیہ‘‘ تیار کرنے کی طرف گامزن ہیں، وہ آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بیانیے کی تیاری میں برصغیر کی مذہبی روایت اور رائج مذہبی رسوم کو کنٹرول کرنے کے نام پر ان کی روک تھام کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس روک تھام کے لئے اب سرکاری طاقت کو بروئے کار لایا جائے گا۔ گویا پہلے جو کام غیر سرکاری عناصر اپنی طاقت سے انجام دے رہے ہیں، اب وہی کام ’’قانون، عدلیہ اور انتظامیہ کی طاقت‘‘ سے انجام دینے کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔

اس روش کا اظہار سیہون شریف پر ہونے والے حملوں کے بعد بعض مذہبی مقامات اور اولیاء کرام کے مزارات پر رفت و آمد بند کرنے کے احکام سے ہوتا ہے، جسے اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ نے پسند نہیں کیا، لیکن اس سے ’’سرکاری ذہنیت‘‘ کی عکاسی ضرور ہوتی ہے۔ وہ افراد جو پنجاب یا وفاقی سطح کی متبادل بیانیہ تیار کرنے والی کمیٹیوں میں شامل ہیں، ان میں سے بعض سے ملاقات کے بعد راقم اسی نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر اس انداز سے بیانیے تیار ہوئے، جس انداز سے ہو رہے ہیں اور سرکاری طاقت سے انہیں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان مزید ایک انتہا پسند ریاست کی شکل اختیار کرتا جائے گا۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ سیہون شریف پر ہونے والے سانحہ کی اب تکرار نہ ہو تو مذہب و مسلک کے حوالے سے ہمیں اختیار و آزادی نیز باہمی احترام کے فکری و عملی عناصر پر مبنی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ ہماری سرزمین روایتی طور پر صوفیاء کی صلح جوئی کا مزاج رکھتی ہے۔ اس مزاج کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ فکری تشدد، لفظی دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کا جواب "لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ" اور خوشی سے جیو اور آزادی سے جینے دو میں مضمر ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬