رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ جاسوس اعلان کرکے نہیں آتے، 2 ہزار غیر ملکی ایجنٹس کو پکڑنا ایجنسیوں کیلئے مشکل نہیں ہوتا۔
ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے امریکی حکومت کے دباؤ پر آرٹیکل نہیں لکھا، اکثر لوگ مضمون پڑھے بغیر ہی تبصرے کر رہے ہیں، میرے خلاف ایسی کوئی تحقیقات نہیں ہو رہیں کہ پاکستان آؤں، میمو کیس میں میری غلطی منصور اعجاز کے فیکس کا جواب دینا تھا، میمو کیس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے مجھ سے منصور اعجاز کے الزامات کے بارے میں پوچھا، جنہیں میں نے جھوٹا قرار دیا، اگر آپ چاہتے ہیں کہ برطانوی عدالت میں پاکستان کا کچا چٹھا کھل جائے تو میں منصور اعجاز کیخلاف مقدمہ کر دیتا ہوں، اگر سپریم کورٹ الیکٹرانک ذریعے کے استعمال کی اجازت دے تو میں بیان ریکارڈ کرانے کیلئے تیار ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں غدار سازی اور واجب القتل قرار دینے کے کارخانے بند ہونے چاہئیں، دونوں کارخانے ایک ہی بلڈنگ میں ہیں، اس سے آگے ایک ڈرائی کلیننگ فیکٹری ہے جس میں تابعداری کرنیوالوں کی صفائی ہو جاتی ہے، وہ بھی بند ہونی چاہیئے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ان کے مضمون پر واویلا پاناما پیپرز اور دیگر معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے مچایا جارہا ہے، جتنا پہاڑ کھودیں گے، چوہے ہی نکلیں گے، سب ٹھنڈے ہو جائیں گے۔/۹۸۹/ ف۹۴۰