رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی مشھد مقدس سے رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے اپنے بیان میں اخلاص کو اسلامی مسلمات میں سے جانا اور کہا کہ یہ چیز فقط الھی مکاتب میں موجود ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ عمل میں اخلاص یا خدا کے لئے کام ، اسلامی مسلمات میں سے ہیں جو اس آسمانی مکتب کو خاص روشنی اور تابندگی عطا کرتا ہے اور اسے نفسیاتی ، اخلاقی ، سماجی اور دیگر میدانوں میں دیگر مکاتب سے الگ کردیتا ہے نیز لوگوں کے بارے میں قضاوت و فیصلہ اور نظریہ قائم کرنے اور اقداروں میں انقلاب کا سبب ہے ، درحقیقت اخلاص وہ اہم ترین اصول ہے جس کی جانب اسلام نے سبھی کو دعوت دی ہے ، یہ اصل الهى دین و شریعت کے علاوہ کسی اور مکتب و مذھب میں موجود نہیں ہے ۔
حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے بیان کیا: مادی مکاتب میں نیکو کار انسان وہ ہے جو نیک عمل انجام دے چاہے اس عمل کا مقصد ، معنویات کا حصول ہو یا نام و نشان ، خدا کی قربت ہو یا سماج میں نام و نمود ، اسے قابل محسوس یا غیر محسوس منافع کے حصول کا وسیلہ قرار دے یا دنیوی منصب تک پہونچنے کا راستہ بنائے ان تمام صورتوں اور حالتوں میں مادی مکاتب کے نزدیک یہ انسان لائق تحسین ہے ۔
انہوں نے تاکید کی : اسلام کے اخلاقی مکتب کی نگاہ سے فقط نیک عمل انجام دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے انجام دینے کا نیک ارادہ اور نیت بھی ضروری ہے ، یعنی ایک ہاسپیٹل کے بنانے میں اس مادی عمل کے ساتھ ساتھ نیک نیتی اور اخلاص کا ہونا بھی ضروری ہے یعنی یہ کہ اسے خدا کے لئے بنائے سود جوئی کے لئے تعمیر نہ کرے ، مقصد انسانوں کی خدمت ہو شھرت نہ ہو ، خلاصہ یہ کہ عمل کی بنیاد الھی اور انسانی اقداروں پر استوار ہو مادیات اور نفسانی مقاصد پر نہ ہو ۔
اس مرجع تقلید نے کہا: یہ وہ مقام ہے جہاں تعریف و تحسین سے پرھیز کرتے ہوئے عمل میں اخلاص ، اقداروں میں انقلاب کا سبب بنتا ہے اور مادی مکتب کا نیکو کار انسان نیت میں خرافات ہونے کی بنیاد پر غیر صالح اور نیکوکاری معرفی کیا جاتا ہے ، نتیجہ میں انسان کے حق میں اسلام کی قضاوت اور فیصلے کے دو میعار ہیں : ایک عمل اور دوسرے نیت و اخلاص ، اگر دونوں ساتھ ہوں اور ایک دوسرے سے ھماھنگ ہوں تو انسان نیکو کار کہا جائے گا ، اس کی تعریف ہوگی اور وہ قابل ستائش ہوگا ، ایسا انسان دونوں جھان میں جزا پائے گا اور اگر عمل میں نیت کا اخلاص و نیکی موجود نہ ہو تو ایسا عمل ، اسلام و شریعت کی نگاہ میں بے حیثیت اور اقداروں سے خالی ہے ۔
انہوں نے بیان کیا: ریا ، ایسے لوگوں کے لئے بہت بڑا اور وسیع جال ہے جو اپنے سرکش نفس کو کھلم کھلا گناہوں کرنے سے روک لیتے ہیں اور شیطان انہیں گناہوں کی جانب کھینچنے سے مایوس و نا امید ہوجاتا ہے ، ان حالات میں گناہوں سے پرھیز اور نفسانی لذات سے اجتناب کرنے والوں کے لئے شیطان ریا کی جال بچھا کر انہیں اسیر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے کہا: بہت سارے لوگ اپنی پوری عمر تظاھر اور ریا میں گزار دیتے ہیں ، فرائض و واجبات و اعمال صالح کی انجام دہی میں ریا کاری سے پیچھے نہیں ہٹتے ، وقت کے گذرنے ساتھ ساتھ اپنے چہرے پر ریا کاری کی پڑی نقاب اتار دیتے ہیں ، اپنے نیک اور اچھے اعمال کو دنیا کے مناصب تک پہونچنے کے استفادہ کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ تقوائے الھی، زھد و عبادت کو الوداع کہہ دیتے ہیں نیز مقام و منزلت حاصل کے کرنے کے بعد فریب کاری ، الحاد و برائیوں کے انجام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی و خوف نہیں برتتے ۔ /۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۷۲۸