تحریر: ثاقب اکبر
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر افغانستان کے اندر داعش دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اس کا دائرہ اثر پھیل رہا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا افغانستان میں بڑھتی، پھیلتی اور پھولتی داعش کی نظر فقط افغانستان پر ہے یا وہ پاکستان اور علاقے کے دیگر ممالک کے لئے بھی خطرہ ہوسکتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے افغانستان میں داعش کی حقیقت، اس کے پھیلاؤ کے علاقے اور عالمی سطح پر اس کی اسٹریٹجی کو سامنے رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی حکومتیں پہلے تو گومگو میں رہیں کہ کیا پاکستان کے لئے داعش کوئی حقیقی خطرہ ہے یا نہیں۔ تاہم اس وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ بالآخر پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں میں داعش کو ایک خطرے کے طور پر اور شاید ایک چیلنج کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے مشاورتی رابطوں اور خود افغان حکومت کے ساتھ عسکری سطح پر قریبی مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں قوی ہوتی ہوئی داعش پر اب خطے کے ممالک کی سنجیدہ نظر ہے۔ گذشتہ دنوں سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ایک انٹرویو نے ایک دفعہ پھر داعش پر نظریں مرکوز کرنے کی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ اس انٹرویو سے یہ بھی ظاہر ہوگیا ہے کہ داعش افغانستان میں آ نہیں رہی بلکہ امریکی سرپرستی میں لائی جا رہی ہے، جس انداز سے جناب حامد کرزئی نے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے داعش کے حوالے سے افغانستان میں ضرور بعض اہم مقاصد ہیں۔ مختلف خبریں اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ شام اور عراق میں تباہی پھیلانے کے بعد اگرچہ داعش کو شکست ہوگئی ہے، تاہم اس کی قیادت کے اہم عناصر کو دنیا کے دیگر خطوں میں امریکی منصوبوں کی تکمیل کے لئے بچایا جا رہا ہے۔ انہی میں سے کئی ایک جنگجو راہنماؤں کو افغانستان میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
جناب حامد کرزئی نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ کے داعش سے رابطے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں داعش کو اسلحہ فراہم کرکے اس کی مدد کر رہا ہے، جبکہ جنگجو تنظیم داعش افغانستان میں امریکی فوجی اڈے بھی استعمال کر رہی ہے اور امریکی اڈوں سے غیر فوجی رنگ کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے داعش کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ سابق افغان صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی ہی میں داعش افغانستان میں قائم ہوئی ہے۔ ٹرمپ حکومت کو ہمارے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد تھے، لیکن اب داعش سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم امریکہ سے سوال کریں کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی اور موجودگی کے باوجود داعش نے کس طرح افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں شک سے بھی زیادہ یقین ہے کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اور یہ ملک کے صرف ایک حصے میں نہیں بلکہ کئی حصوں میں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو اسلحہ کی فراہمی کی خبریں افغان شہری ہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود افراد اور دیہات میں رہنے والے افراد بھی دے رہے ہیں۔ ملک بھر سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ داعش کو امریکی مدد حاصل ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس نے بھی امریکہ کو داعش کا مددگار قرار دیا ہے۔ داعش کے حوالے سے شام میں امریکہ کے کردار کو ترکی بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایران بھی کہہ چکا ہے کہ اس کی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بارہا اپنے طیاروں کے ذریعے داعش کے علاقوں میں اسلحہ اور غذا فراہم کی ہے۔ روس نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ شام میں داعش کی شکست میں رکاوٹ ہے۔ نیز عراق میں بھی داعش کے ٹھکانوں سے امریکی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
پاکستان کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور بھی کہہ چکے ہیں کہ داعش افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔ خیبر فور آپریشن کے مقاصد بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ آپریشن کا مقصد سرحد پار موجود داعش کو پاکستانی علاقوں میں کارروائیوں سے روکنا ہے۔ پاڑا چنار میں جو سانحہ رونما ہوا، اس حوالے سے بھی انھوں نے بتایا کہ گرفتار افراد کے داعش سے رابطے کے شواہد ملے ہیں۔ داعش کے حوالے سے بڑھتی ہوئی اطلاعات کی وجہ سے پاکستان سرحد پر باڑ لگانے کے لئے زیادہ سنجیدہ ہوچکا ہے۔ جنوری 2015ء میں ISIS یا ISIL کی خراسان برانچ نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔ اس برانچ کو داعش ولایت خراسان کا نام دیتی ہے، جس میں اس کے مطابق افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر علاقے بشمول بھارت شامل ہیں۔ مرکزی ایشیا کی ریاستیں اور چین کی مسلم آبادی کی ریاست سنکیانگ بھی اسی ولایت کا حصہ سمجھتی جاتی ہے۔ اس ولایت کا سربراہ تحریک طالبان پاکستان کے ایک سابق کمانڈر حافظ سعید خان کو مقرر کیا گیا، جبکہ افغان طالبان کمانڈر عبدالرؤف علیزا کو 2015ء میں اس کا ڈپٹی مقرر کیا گیا تھا، جو بعد میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ شاید امریکیوں کی ترجیح یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگ داعش میں شامل ہوں۔ جون 2015ء میں داعش افغانستان میں ایک علاقے پر قبضے میں کامیاب ہوگئی۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے بھی داعش میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ ابتداء میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں داعش اور طالبان کے مابین جنگ ہوئی اور نتیجے کے طور پر داعش نے طالبان کو اس علاقے سے نکال دیا۔ آہستہ آہستہ ہلمند اور فراہ میں بھی داعش نے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ زابل میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور افغان طالبان کے درمیان جنگ ہوئی اور کچھ علاقہ داعش نے مزید حاصل کر لیا۔ 2015ء کے آخر میں داعش نے ریڈیو کی پشتو سروس کا آغاز کیا اور بعدازاں دری زبان میں بھی نشریات شروع ہوگئیں۔ اس طرح بہت مختصر سے وقت میں داعش نے اپنی موثر موجودگی ثابت کر دی۔
تورا بورا کے پہاڑی سلسلے میں امریکہ نے مدر آف آل بمز (MOAB) گرا کر اس علاقے کوافغان طالبان سے خالی کروا لیا۔ طالبان کے وہاں سے نکلتے ہی اس علاقے میں داعش داخل ہوگئی اور آج یہاں داعش موجود ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ کرم ایجنسی میں اس علاقے میں آسانی سے داخل ہوا جاسکتا ہے۔ تورا بورا میں داعش کے داخل ہونے کے بعد ہی کرم ایجنسی کا آخری ہولناک سانحہ پیش آیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ داعش کے جنگجو شام اور عراق سے افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ چنانچہ یو این او کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق اور شام سے 70 داعشی جنگجوؤں کا ایک گروہ افغانستان پہنچا ہے۔ افغانستان میں ایک امریکی جنرل سین سیونڈل نے بھی بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ولایت خراسان کے شام میں موجود داعش سے رابطے ہیں۔ افغانستان میں آنے والے عرب جنگجوؤں نے اس علاقے میں پہنچ کر افغانیوں کا لباس اختیار کر لیا ہے۔ داعش کو افغانستان میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہ پاکستان میں حاصل نہیں ہوسکی اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف مسلسل پورے ملک میں آپریشن کر رہی ہے۔ داعش کے لئے اس کے ہاں کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان میں داعش اگرچہ کسی ایک علاقے میں اپنا اثرورسوخ پیدا نہیں کرسکی، تاہم اس کا نیٹ ورک پاکستان میں ضرور موجود ہے۔ اس نے پاکستان میں پہلی کارروائی 13 مئی 2015ء کو کراچی میں کی، یہ ایک بس پر حملہ تھا۔ اس کے بعد اس نے مختلف وقفوں سے کوئٹہ، چارسدہ، خضدار، پشاور، سیہون شریف اور دیگر کئی ایک شہروں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پاکستان میں فعال بعض دہشت گرد گروہوں اور افراد نے داعش کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا ہے، لیکن اس وقت تک کوئی علاقہ پاکستان میں داعش کے تصرف میں نہیں ہے۔
داعش نے مختلف کارروائیاں بھارت میں بھی کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کی ریاست کیرالا سے 21 نوجوان غائب ہیں، جن کے بارے میں امکان ہے کہ انھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ انہی میں سے ایک نوجوان افغانستان میں امریکی ڈرون حملے سے مارا گیا ہے، جس کا نام حفیظ الدین بتایا جاتا ہے۔ تاہم بھارت میں داعش کی فعالیت اور کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں، اس کی ایک وجہ افغانستان میں امریکہ اور بھارت کے مابین قریبی ہم آہنگی ہے۔ اب جبکہ افغانستان میں داعش کے قائم مرکز کے بارے میں بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں اور یہ امکان موجود ہے کہ شام اور عراق میں داعش کی مکمل شکست کے بعد امریکہ کا اگلا محاذ پاکستان ہی ہے اور یہ امر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے بارے میں جاری کی گئی نئی حکمت عملی سے بھی ظاہر ہوتا ہے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر ایک نئی جنگ دستک دے رہی ہے۔ ہماری رائے میں تو یہ سب تیاری افغانستان کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے کی جا رہی ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں سی پیک پر بھی شدید اعتراضات کئے ہیں۔ امریکہ کسی وقت بھی پاکستان کے جوہری پروگرام پر ایک مرتبہ پھر جنجال کھڑا کرسکتا ہے۔ اس نے بھارت کو افغانستان میں خصوصی کردار سونپ دیا ہے۔ بھارت کی فضائیہ کے سربراہ نے پاکستان پر اسٹرٹیجک سٹرائیکس کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ یہ سب واقعات جو ایک خاص ترتیب سے رونما ہو رہے ہیں، کسی نئی کالی آندھی کی خبر دے رہے ہیں۔
عراق اور شام میں جس طرح سے داعش کو لانچ کیا گیا اور جیسے وہ دونوں ملکوں کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوگئی، اسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کے غدار جو انہی علاقوں میں موجود ہیں، جہاں اس وقت داعش نے ڈیرے جما لئے ہیں، لازمی طور پر داعش کی کالی آندھی کا حصہ بن جائیں گے۔ پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان کے بہت سے کمانڈر داعش میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں تحریک طالبان افغانستان کو بھی خاصی تشویش ہے، چنانچہ ملا اختر منصور نے ابوبکر بغدادی کو خط لکھا تھا کہ وہ افغانستان میں بھرتی کو بند کریں اور یہاں جہاد طالبان کے تحت جاری رکھا جانا چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ افغان طالبان کے کئی معرکے داعش کے ساتھ ہوچکے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کی قیادت نے داعش سے رابطوں کی کوشش کی ہے، لیکن شام میں النصرہ فرنٹ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے داعش کا کردار یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ وہ کسی صورت بھی افغان طالبان کو کوئی گنجائش نہیں دیں گے۔ البتہ امریکہ نہیں چاہتا کہ داعش پورے افغانستان میں پھیل جائے، چنانچہ وہ اسے فقط پاکستان کے شمال مغرب میں اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں کی طرف بڑھنے اور پھیلنے کا موقع دے رہا ہے۔
پاکستان، روس اور چین جو داعش کے افغانستان میں پھیلاؤ پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ داعش کا افغانستان میں توڑ افغان طالبان ہی بہتر کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس، چین اور پاکستان اپنی گذشتہ میٹنگز میں افغان طالبان کے لئے کچھ رعایتوں کا اعلان کرچکے ہیں۔ البتہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا حامد کرزئی کے بیان کے بعد کابل میں اشرف غنی کی حکومت بھی اس صورت حال کو اسی تناظر میں سمجھ رہی ہے، جسے سابق افغان صدر نے بیان کیا ہے اور کیا پاکستان کی عسکری قیادت نے اس حوالے سے افغان قیادت سے کوئی ہم آہنگی پیدا کی ہے یا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان کی موجودہ قیادت اس مسئلے کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ سمجھ لے تو شاید اس سے نمٹنا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ داعش سے جنگ کا تجربہ ہمارے خطے میں ایران اور روس کو زیادہ ہے، اس سلسلے میں انہیں مشرق وسطٰی میں خاصی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ ایران نے اپنے ملک کے اندر بھی داعش کے نیٹ ورک پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ اسے یقیناً افغانستان میں قوی ہوتی ہوئی داعش پر شدید تشویش ہوگی۔ پاکستان کے سپہ سالار جلد ہی ایران کے دورے پر جا رہے ہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ اس سارے منظر نامے پر دونوں ملکوں کی عسکری قیادت کے مابین بات ہوگی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرق وسطٰی کے امور میں ترکی اور ایران کے مابین ہم آہنگی میں خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ ترکی کے امریکہ سے پہلے جیسے روابط بھی نہیں رہے۔ اسے اسرائیل سے بھی سنگین شکایات پیدا ہوچکی ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر افغانستان میں داعش سے مقابلے کے لئے ہم ترکی سے بھی مدد لے سکتے ہیں اور علاقے کے تمام ممالک اس حوالے سے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے سکتے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۴۰