‫‫کیٹیگری‬ :
18 November 2017 - 16:16
News ID: 431865
فونت
جبری گمشدگیوں کے اور بھی بہت سے واقعات میں ایک اہم واقعہ ایڈووکیٹ ناصر عباس شیرازی کے جبری اغواء کا ہے، جسکو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ ہائیکورٹ بھی انکی بازیابی کیلئے قاصر نظر آتی ہے۔ ناصر شیرازی کی بازیابی کیلئے ملک کے گوش و کنار میں احتجاج کیا گیا، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کیجانب سے انکی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ میڈیا پر بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا دہشتگردی کیساتھ ہمیں ریاستی جبر کا شکار بنایا جا رہا ہے، درجنوں شیعہ جوانوں کو جبری طور پر اغواء کیا جا چکا ہے۔
سید ناصرعباس شیرازی

تحریر: توقیر کھرل

بین الاقوامی قانون کے تحت اگر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضا مندی سے کارروائی کرنے والے افراد کی طرف سے کسی کو گرفتار، اغوا یا حراست میں لیا جاتا ہے اور بعدازاں حراست سے انکار سے کیا جاتا ہے یا گمشدہ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے، جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر چلا جاتا ہے تو یہ کارروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ سنگین ہوچکا ہے، آئے روز کوئی بلوچی کوئی صحافی یا کسی تنظیم کا فرد جبری طور اغواء کر لیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر افسوسناک ہے کہ مغوی کے ورثاء کئی دنوں تک احتجاج کرتے ہیں، پریس کانفرنسز دھرنے اور بھوک ہڑتال کرتے ہیں، لیکن گم شدہ افراد نجانے کہاں پر غائب کر دیئے جاتے ہیں اور اہل خانہ اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی پارٹی یا مذہبی گروہ ہو، جس کے کارکنان کو اغواء نہ کیا گیا ہو۔

جبری طور پر اغواء کا یہ معاملہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء میں بھی سنگین ہوچکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آئے روز ایسے معاہدے پر دستخط کرتی رہتی ہیں، جس پر یہ طے ہوتا ہے کہ قانون اور عدالتوں کی موجودگی میں کسی بھی فرد کو جبری طور پر اغواء کرنا جرم اور قابل مذمت ہے، لیکن یہ سلسلہ گذشتہ دو سال سے شدت اختیار کر چکا ہے اور آئے روز کسی بھی ایکوسٹ کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ گذشتہ سال بلوچ رہنماء واحد بلوچ کو جبری طور پر اغواء کیا گیا، جس کیلئے ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند کی گئی اور وہ کچھ ہی دنوں بعد واپس آگئے۔ اس سال کے آغاز میں ہی سلمان حیدر، وقاص حیدر اور گورایا کو بھی لاپتہ کیا گیا اور وہ 20 روز بعد لوٹ آئے۔ جبری طور پر گمشدہ افراد جب واپس آتے ہیں تو ہمراہ کوئی الزام بھی لاتے ہیں، جو چند روز بعد ہی ختم ہو جاتا ہے۔

جبری گمشدگیوں کے اور بھی بہت سے واقعات میں ایک اہم واقعہ ایڈووکیٹ ناصر عباس شیرازی کے جبری اغواء کا ہے، جس کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ ہائی کورٹ بھی ان کی بازیابی کیلئے قاصر نظر آتی ہے۔ ناصر شیرازی کی بازیابی کیلئے ملک کے گوش و کنار میں احتجاج کیا گیا، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ میڈیا پر بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا دہشت گردی کے ساتھ ہمیں ریاستی جبر کا شکار بنایا جا رہا ہے، درجنوں شیعہ جوانوں کو جبری طور پر اغواء کیا جا چکا ہے، جبکہ ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی کو بھی لاہور سے اغواء کیا گیا ہے۔

خبر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے حکومت کو اقوامِ متحدہ کے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ میں رد و بدل کرنے کی کوشش سے خبردار کر دیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے یونیورسل پریوڈک ریویو کے گذشتہ اجلاس میں جو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہوا تھا، میں پاکستان نے ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تاہم اس مرتبہ خواجہ آصف کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ مسئلہ موجود ہی نہیں ہے اور خواجہ محمد آصف جلد ہی اقوامِ متحدہ کے یونیورسل پریوڈک ریویو کے اجلاس میںشریک ہونگے اور انسانی حقوق کی صورتحال پر قومی رپورٹ کو پیش کریں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ  بابر نے تجویز دی کہ یہ بہتر ہوگا کہ اس اجلاس میں پاکستان دوٹوک اعلان کرے کہ وہ رواں برس کے اختتام تک ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دے دے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جبری گمشدگی کو متعدد بار انسانی وقار کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیاء کی کسی بھی ریاست میں جبری گمشدگی کو ایک باقاعاعدہ جرم تصور نہیں کیا جاتا، جو کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔ جبری گمشدگی پر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے غیر تسلیم شدہ حراستوں کو محض گمشدہ افراد قرار دیا جاتا ہے۔ جبری گمشدگیوں پر صرف اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ خطے کی حکومتیں انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کو فوری طور پر جرم قرار دیں، تاکہ ماورائے قانون جبری حراست کا یہ معاملہ ختم ہو پائے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬