تحریر: نذر حافی
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سوچتی ہوئی عقل سے ہر فریب کار کو خطرہ ہے، اگر کسی کا دماغ فعال ہے اور اُس کی عقل کام کر رہی ہے تو پھر اُسے فریب دینا آسان کام نہیں۔ کسی بھی ملت کا دماغ اس کے دانشور ہوتے ہیں، اگر کسی ملت کے دانشور اپنا کام نہ کریں تو وہ ملت فہم و فراست اور شعور سے عاری ہو جاتی ہے، یعنی پسماندہ رہ جاتی ہے۔ دانشوروں کا کام اچھائی اور برائی کی تمیز اور حق و باطل کا فرق کرکے اچھے کو اچھا اور برے کو برا، اسی طرح حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہوتا ہے۔ چنانچہ فریب کار جب کسی معاشرے میں برائیوں کی ترویج اور باطل کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس معاشرے، قوم اور ملک کے دانشوروں کو اچھائی اور برائی نیز حق اور باطل کی نسبت غیر فعال کرتے ہیں۔ آج کے دور میں دانشوروں کو اُن کا کام کرنے سے روکنے کے لئے انہیں غیر جانبداری کے درس دیئے جاتے ہیں، حالانکہ غیر جانبداری کے یہ درس دینے والے خود بھی غیر جانبدار نہیں ہوتے، یہ فریب کار اپنے مدِّمقابل کو نرم کرنے کے لئے اُسے کہتے ہیں کہ سارے گروہوں، سارے ادیان، ہر طرح کے حق و باطل سے بالاتر ہو جاو۔ بالاتر ہو جاو، یعنی حق کا ساتھ نہ دو اور ہمارے ساتھ مل جاو۔ یہ دراصل کسی کو حق کی حمایت سے ہٹانے کا ایک حربہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خداواندِ عالم جو سارے انسانوں کا خالق ہے، وہ بھی سارے گروہوں کی نسبت غیر جانبدار نہیں ہے، بلکہ وہ حزب الشیطان کا سخت ترین دشمن ہے اور سارے ادیان میں سے صرف اسلام کو ہی دین قرار دیتا ہے اور باقی ادیان کی نفی کرتا ہے، اسی طرح اس کے نزدیک حق و باطل سے بالاتر یا ان کے درمیان کچھ نہیں ہے، جو کوئی بھی ہے، وہ یا حق پر ہے اور یا باطل پر۔ اگر کوئی حزب اللہ اور حزب الشیطان سے بالاتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور میدانِ حرب میں زبان و قلم کے ساتھ حزب اللہ کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ دراصل حزب الشیطان کے پلڑے میں اپنا ووٹ ڈالتا ہے، اسی طرح اگر کوئی مقامِ ضرورت پر دینِ اسلام کی مدد و نصرت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور دینِ اسلام کی نصرت نہیں کرتا تو دراصل اسلام کے دشمنوں کی کمر مضبوط کرتا ہے اور یونہی اگر کوئی حق و باطل کے معرکے میں یہ کہتا ہے کہ میرے لئے تو سب برابر ہیں تو ایسا شخص دراصل حق والوں کی حمایت نہ کرکے باطل کو مضبوط کرتا ہے۔
آج ضروری ہے کہ دانشور حضرات غیر جانبدار ہونے کے دلکش اور پُرفریب نعرے سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ یہ جان لیں کہ ایک اصول پرست انسان کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حق والے اُسے پھولوں کے ہار پہنائیں اور باطل والے اس کے پاوں دھو کر پئیں، بلکہ وہ ایک گروہ کے نزدیک بہترین اور دوسرے کے نزدیک بدترین کہلائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر حق کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار بن کر حق پر پردہ ڈالا جائے اور حق کو عقب نشینی پر راضی کیا جائے اور اس طرح دنیا میں جنگ و جدال میں کمی واقع ہو جائے گی تو یا تو ایسے شخص کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور یا پھر وہ دوسروں کی عقل پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ دنیا میں نفرت، جنگ و جدال اور خون خرابہ ہے ہی باطل کی وجہ سے، اگر باطل کے مقابلے میں کسی بھی محاذ پر ایک قدم عقب نشینی کی جائے تو باطل دو قدم آگے بڑھتا ہے، یہ باطل ہی ہے جو ظلم کرتا ہے، جو جارحیت کرتا ہے، جو شب خون مارتا ہے، جو لوگوں سے ان کے پیدائشی و جمہوری اور فطری حقوق چھینتا ہے۔
باطل کے مقابلے میں پیچھے ہٹ کر کسی فساد، کسی ایٹمی جنگ یا خون خرابے کو نہیں روکا جا سکتا، بلکہ باطل کے مقابلے میں آگے بڑھ کر اور سینہ سپر ہو کر ہی خونریز جنگوں، مظالم اور ناانصافیوں کو روکا جاسکتا ہے۔ اپنے سامنے تاریخِ پاکستان کا تجربہ رکھئے اور دیکھ لیجئے کہ ہم جس قدر باطل لشکروں اور ٹولوں کے مقابلے میں عقب نشینی اور نرمی کرتے گئے، اُسی قدر یہ باطل لشکر آگے بڑھتے گئے، پہلے ایک ایک کرکے ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے، پھر امام بارگاہوں میں، پھر مسجدوں میں، پھر مزارات پر، پھر مسافروں پر، پھر عوامی مراکز پر، پھر فوج و پولیس پر، پھر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حتٰی کہ پھر تو سکولوں کے بچوں کو بھی قتل کرنا شروع ہوگئے۔ پاکستان آج غیر محفوظ نہیں ہوا بلکہ سچ اور حق بات یہ ہے کہ پاکستان اُسی روز غیر محفوظ ہوگیا تھا، جس روز پہلی مرتبہ کسی بے گناہ کے قتل پر ہم سب نے بحیثیت قوم غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰