رسا ںیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انقلابی کونسل کے ذریعے عبوری وزیراعظم منتخب ہونے اور چارج سنبھالنے کے بعد مہدی بازرگان نے اب پوری طرح سے اپنا کام شروع کر دیا لیکن شاپور بختیار جو ابھی بھی خود کو قانونی وزیراعظم کہتا تھا وزارت عظمی کے دفتر سے نکلنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سات فروری انیس سو اناسی کی صبح مہدی بازرگان اپنے ضروری سامان کے ساتھ علوی ہائر سکینڈری اسکول کی عمارت میں منتقل ہوگئے اور کہا کہ وہ وزارت عظمی کے دفتر میں نہیں جائیں گے۔ مہدی بازرگان نے اسی مقام کو وزارت عظمی کے دفتر کے طور پر منتخب کیا جہاں امام خمینی رحمت اللہ علیہ قیام پذیر تھے اور پھر وہیں سے اپنے فرائض انجام دینے لگے۔
دوسری جانب مفرور شاہ محمد رضا پہلوی نے جو مراکش میں تھا ایک یورپی اخبار سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ میں اب بھی شاہ ایران ہوں اور میں ہی ایران کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوں= اس وقت کے مصری صدر انور سادات نے محمد رضا پہلوی سے کہا کہ وہ ایران کے جدید ترین جنگی طیارے ایف چودہ کو ایران سے مصر منتقل کرا دیں۔ سات فروری کو ایران کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے الگ الگ ملاقات کی۔امام خمینی نے صوبہ کردستان کے عوام سے خطاب میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر تاکید کی اور اہواز شہر کے علما سے ملاقات میں فرمایا کہ تحریک کا جاری رکھنا ایک شرعی فریضہ ہے جبکہ وکیلوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ شاہ کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے۔ جنرل ہایزر کے ایران سے بے نیل و مرام واپس لوٹنے کے بعد امریکی صدر اور وزرائے دفاع و خارجہ نے ایک میٹنگ کی جس کے بعد امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم ایران میں آئین کی عملداری کی حمایت کرتے ہیں-
امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ واشنگٹن ابھی بھی بختیار کی حکومت کو ہی ایران کی اصل حکومت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ بختیار کو چاہئے کہ وہ عوام کی اکثریت کی رائے کا احترام کریں۔ اس درمیان عبوری حکومت کے رکن ڈاکٹر سنجابی نے اعلان کیا کہ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے بختیار اور بازرگان کے درمیان مذاکرات اور تبادلہ خیال جاری ہے۔ ریڈیو بی بی سے نے کہا کہ آیت اللہ خمینی کی تحریک اور ایرانی فوج کے درمیان بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ ادھر زنجان شہر کے عوام نے ایک غیر معمولی ریلی نکال کر جس میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور آپ کے مقرر کردہ وزیراعظم کے لئے اپنی وفاداری اور حمایت کا اعلان کیا۔ ایسو شی ایٹڈ پریس نے خبر دی کہ فوج سے رابطے میں مغربی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ ایران کے سبھی فوجی جنرل اب اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ انقلاب کو ناکام بنانے اور عبوری حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے ان کے پاس طاقت و توانائی نہیں ہے۔ ریڈیو بی بی سی اور ریڈیو ماسکو نے خبر دی کہ سیکڑوں سابق فوجی افسران منجملہ ان سابق فوجی کمانڈروں نے جنھیں شاہ کی مخالفت کرنے کی بنا پر فوج سے برخاست کر دیا گیا تھا آیت اللہ خمینی کی حمایت کا اعلان کر دیا-
تہران میں امن و امان کی نگرانی کرنے والے فوجی کمانڈر نے کرفیو کے نفاذ کی مدت میں یہ کہہ کر کمی کردی کہ لوگ کرفیو کی پروا کئے بغیر سڑکوں پر نکل رہے ہیں= مجلس شورائے ملی کے مزید تیرہ ارکان نے استعفی دے دیا تھا- اس سے دو روزقبل بھی چالیس ارکان پارلیمنٹ استعفی دے چکے تھے۔مصر کے صدر انورسادات نے مراکش میں پناہ لئے ہوئے محمد رضا شاہ پہلوی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ادھر رضائیہ شہر میں فوج کے چونسٹھویں ڈویژن کے کمانڈر شکوری کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے دفتر جا رہا تھا جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایران کی بدلتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا- /۹۸۸/ ن۹۴۰